1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: اونگ سان سُو چی کی نظر بندی کے خلاف اپیل مسترد

26 فروری 2010

میانمار میں حزبِ اختلاف کی رہنما اونگ سان سُو چی گزشتہ کئی برسوں سے نظر بند ہیں اور جمعہ کو ملکی سپریم کورٹ نے ان کی نظر بندی کی مدت میں توسیع کے خلاف اپیل بھی رد کر دی۔

https://p.dw.com/p/MDF9
اونگ سان سُو چی کا شمار دنیا کے اُن سیاسی رہنماوں میں ہوتا ہے، جہنوں اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اپنے نظریات کی خاطراسیری میں گزراتصویر: AP

اس عدالتی فیصلے سے بالواسطہ طور پر یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سابقہ برما اور موجودہ میانمار میں اسی سال ہونے والے عام انتخابات بھی کتنے غیر جانبدارانہ ہو سکتے ہیں۔

گزشتہ دوعشروں میں اونگ سان سُو چی نے زیادہ تر وقت اسیری میں گذارا ہے اور یہ اسیری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اگست 2009 میں ان کی نظر بندی میں اٹھارہ ماہ کی توسیع اُس وقت کی گئی جب ایک امریکی شہری ایک جھیل میں تیرتا ہوا، اُس جھیل کے کنارے واقع سُو چی کی رہائش گاہ تک پہنچ گیا تھا۔

کچھ عرصہ قبل میانمار میں اپوزیشن کی اس جمہوریت پسند رہنما نے اپنے وکیل کے ذریعے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن جمعہ کو انہیں اس عدالت سے بھی جواب یہی ملا کہ ان کی نظر بندی میں توسیع جائز ہے۔

Philippinen Myanmar Proteste
اگست 2008 میں فلپائن کے شہر منیلا میں میانمار کے شہریوں نے اپنے ملک کی فوجی حکومت کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیاتصویر: AP

نوبل امن انعام یافتہ سُو چی کے وکیل کے مطابق اس اپیل پر جج نے صرف اپنا حکم سنایا لیکن اپیل رد کئے جانے کی کوئی وجوہات نہیں بتائیں۔ اس موقع پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور آسڑیلیا کے سفیر بھی عدالت میں موجود تھے۔ قبل ازیں ایک مقامی عدالت نے بھی سُو چی کی مسلسل اسیری کے خلاف دائر کی گئی ایک اپیل رد کر دی تھی۔

تازہ عدالتی فیصلے کے بعد اونگ سان سُو چی کے وکیل وِن نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے سے نہ تو حیران ہوئے ہیں اور نہ ہی مایوس۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب ایک خصوصی اپیل دائر کریں گے اور اگر وہ بھی مسترد کر دی گئی تو ایک ایسی نئی اپیل دائر کی جائے گی، جس کی سماعت ملک کے نئے دارالحکومت Naypyidaw میں ہوگی۔

سُو چی کے وکیل وِن کی قانونی کوششوں کے برعکس میانمار میں حزبِ اختلاف کے کئی رہنما اب پرامید نظروں سے بین الاقوامی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں، جس نے تازہ ترین عدالتی فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے میانمار میں فوجی حکومت پر سخت تنقید بھی کی ہے۔

برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میانمار میں 2100 ضمیر کے قیدی ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ براؤن نے کہا کہ اس فیصلے کا مقصد حزبِ اختلاف کی خاتون رہنما کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا ہے۔

میانمار میں فرانسیسی سفیر ژاں پی ایغ لافَوس نے کہا کہ حقیقی قومی مصالحت کے لئے اونگ سان سُو چی کی فوری رہائی ضروری ہے۔ خبر ایجنسیوں کے مطابق یہ واضح نہیں کہ میانمار میں فوجی قیادت واقعی مصالحت چاہتی ہے یا نہیں، کیونکہ ابھی تک اس آمرانہ حکومت نے انتخابات سے پہلے بین الاقوامی برادری کو ملے جلے ہی اشارے دئے ہیں۔

Aung San Suu Kyi Flash-Galerie
گزشتہ بیس سالوں میں اونگ سان سُو چی کی رہائی کے لئے میانمار میں کئی مظاہرے کئے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

فروری کے شروع میں حکومت نے حزب اختلاف کی رہنما سُو چی کی پارٹی قومی لیگ برائے جمہوریت کے نائب سربراہ Tin Oo کو سات سال کی اسیری کے بعد رہا کر دیا، لیکن ایک ہفتہ پہلے جب اقوام متحدہ کے مندوب برائے انسانی حقوق Quintana نے میانمار کا دورہ کیا تو فوجی حکومت نے پانچ حکومت مخالف سیاسی کارکنوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر ایک مختلف پیغام دیا۔ اقوام متحدہ کے اس مندوب کو نوبل انعام یافتہ سُو چی سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔

میانمار میں آخری مرتبہ انتخابات 1990 میں ہوئے تھے جن میں سُو چی کی نیشنل لیگ نے واضح برتری حاصل کی تھی، تاہم فوجی حکمرانوں نے اقتدار اس خاتون رہنما کو منتقل کرنے کے بجائے انہیں جیل میں ڈال دیا تھا۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: مقبول ملک