میرکل پوٹن ملاقات میں سفارتی کشیدگی ختم کرنے کی کوششیں
2 مئی 2017اپریل 2015ء میں جرمن پارلیمان کے متعدد ارکان کو ایک ای میل ملی، جو بظاہر اقوام متحدہ کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔ ان پارلیمانی اراکین نے جیسے ہی میل کے ساتھ بھیجی گئی اٹیچمنٹ کھولی، ایک وائرس اُن کے کمپیوٹرز میں گھُس گیا، جو اگلے کئی ہفتوں تک خفیہ معلومات چُراتا رہا۔
جرمنی کے لیے یہ واقعہ شرمندگی کا بھی باعث بنا۔ شواہد سے پتہ چلا کہ جرمن پارلیمان دراصل ایک روسی سائبر حملے کا نشانہ بنی تھی۔ یہ وائرس ایک ایسے گروپ کی جانب سے بھیجا گیا تھا، جسے جرمن حکام ’ایڈوانسڈ پرسسٹنٹ تھریٹ 28‘ یا ’فینسی بیئر‘ کے نام سے جانتے تھے۔
اس معاملے کا تعلق جرمن سرزمین سے جرمنی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا جبکہ جنوری 2016ءمیں اس کے بالکل برعکس ہوا یعنی جرمنی کے بارے میں غلط معلومات شائع کی گئیں۔ روسی میڈیا نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا تھا کہ عرب مہاجرین نے برلن کی ایک تیرہ سالہ روسی جرمن لڑکی کو اغوا کیا اور اُس کی آبروریزی کی۔
اس خبر کے منظرِ عام پر آتے ہی جرمنی میں آباد روسی کمیونٹی سڑکوں پر نکل آئی اور اس ملک میں امن و سلامتی کے شعبے میں پائی جانے والی مبینہ خامیوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اگرچہ بعد میں اس لڑکی نے مان بھی لیا کہ یہ ساری کہانی جھوٹی تھی تاہم روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے پھر بھی جرمن حکام پر الزام لگایا کہ اُنہوں نے ’داخلی سیاسی وجوہات کی بناء پر حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی‘۔
یہ دونوں واقعات اس بات کی مثالیں ہیں کہ روس میں جرمنی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے ’اسٹریٹیجک کمیونیکیشن سینٹر آف ایکسیلینس‘ کے ڈائریکٹر ژینیس سارٹس کے خیال میں اس کی سیدھی سیدھی وجہ یہ ہے کہ جرمنی یورپ میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ سارٹس کے مطابق جرمنی نے یورپ کو متحد کر کے رکھا ہوا ہے اور ماسکو حکومت کے خیال میں ایک مضبوط یورپ روس کی پوزیشن کو کمزور کرتا ہے اور یہی اس طرح کے حملوں کی وجہ ہے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ جرمنی نے روس کو یوکرائن کے مزید علاقوں کو جبری طور پر ساتھ ملانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔
یہ ہے وہ پس منظر، جس میں منگل دو مئی کو میرکل اور پوٹن کی ملاقات عمل میں آ رہی ہے۔ روسی سرزمین پر دو سال بعد ہونے والی ان دونوں رہنماؤں کی اس پہلی ملاقات میں شام اور یوکرائن کے ساتھ ساتھ جولائی میں جرمن شہر ہیمبرگ میں مجوزہ جی ٹونٹی سمٹ پر بھی بات ہو گی اور جرمنی میں رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی روسی کوششیں بھی موضوع بنیں گی۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رکن پارلیمان اور روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جرمن حکومت کے نمائندے گیرنوٹ ایرلر کے خیال میں اس ملاقات کے دوران جرمن چانسلر کا پیغام واضح ہو گا اور وہ یہ کہ ہیکنگ جیسے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی ناقابلِ قبول ہے۔
میرکل کے بعد جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل اور صدر فرانک والٹر شٹائن مائر بھی روس کے ساتھ مذاکرات کا پروگرام رکھتے ہیں اور ان تمام جرمن رہنماؤں کی کوشش ہو گی کہ روس کے ساتھ مکالمت بڑھاتے ہوئے تمام تر مسائل کے ’تعمیری حل‘ تلاش کیے جائیں۔
دوسری جانب برلن میں قائم جرمن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سکیورٹی افیئرز (SWP) سے وابستہ مشرقی یورپی امور کی ماہر زابینے فِشر کے مطابق روس یورپ میں اپنی پوزیشن مستحکم بنانے کے لیے تنازعات کھڑے کر رہا ہے یا پہلے سے موجود تنازعات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ فِشر کے مطابق شام اور یوکرائن کی مثالوں سے یہ واضح ہے کہ روس اب بین الاقوامی تنازعات میں ایک زیادہ سے زیادہ فعال ملک کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
فِشر کہتی ہیں کہ روس کے یہ اقدامات یورپی یونین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں لیکن اُن کے خیال میں یورپی یونین کو روس کے مقابلے پر آنے اور مختلف خطّوں میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے تنازعات کو مقامی سطح پر حل کرنے کی کوششیں کرنا چاہییں۔ اُن کے خیال میں جرمنی کے لیے روس کے ساتھ تعمیری مکالمت شروع کرنا غالباً مشکل ہو گا۔