میرکل کا ایک اور امتحان، پارٹی میں بغاوت
11 دسمبر 2015یورپ کا معاشی بحران ہو یا یوکرین کے مسئلے پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا سامنا کرنا، انگیلا میرکل نے ہر قسم کے بحران کے دوران جرمنی کے ملکی مفادات کا تحفظ کیا۔ اسی وجہ سے میرکل کو خاتون آہن اور ’سُپر وومن‘ کے القابات دیے جاتے ہیں اور پارٹی اراکین انہیں ایک ہیرو سمجھتے ہیں۔
لیکن اگلے ہفتے جب اکسٹھ سالہ میرکل کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (سی ڈی یو) کے سالانہ اجلاس میں پہنچیں گی تو انہیں ایک منفرد قسم کے بحران سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ پارٹی کے اندر اکثر رہنما اور کارکن مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھلے رکھنے پر میرکل سے ناخوش ہیں۔
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کا بااثر یوتھ وِنگ تو اعلانیہ طور پر میرکل کی پالیسی کے خلاف ہے۔ سالانہ اجلاس سے قبل ہی وہ میرکل سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جرمنی میں تارکین وطن کی ’بالائی حد‘ مقرر کی جائے۔ میرکل کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے یہ مطالبہ بارہا کیا جاتا رہا ہے تاہم انہوں نے ہر بار اس مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔
انگیلا میرکل کو جرمنی کی چانسلر کے طور پر دس برس ہو چکے ہیں اور اگلے برس پارٹی انہیں چوتھی مرتبہ اس عہدے کے لیے نامزد کرنے کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ جرمنی کے کثیر الاشاعتی روزنامہ فرانکفرٹر آلگیمائنے سائٹُنگ نے آج اپنے اداریے میں لکھا ہے، ’’چانسلر بننے کے بعد سے میرکل کو پہلی مرتبہ اس قدر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے کچھ اراکین کے مطابق پارٹی کے اراکین میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ برسوں کے بعد ایسی صورت حال دیکھی جا رہی ہے کہ پارٹی کے رہنما اعلانیہ اور پس پردہ میرکل کی مخالفت کرتے دیکھے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی جرمن ریاست سیکسنی کے سابق وزیر انصاف شٹیفن ہائٹ مان نے میرکل کی ’مہاجرین دوست پالیسی‘ پر احتجاج کرتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ میرکل کے نام لکھے ایک خط میں ہائٹ مان نے استعفیٰ کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اب سے پہلے کبھی انہوں نے خود کو ’’اپنے ہی ملک میں اتنا اجنبی‘‘ محسوس نہیں کیا۔
سی ڈی یو کے ایک سینئر سیاست دان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ میرکل سے شدید ناراض ہیں اور میرکل مکمل طور پر تنہا ہیں۔‘‘
پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما کا کہنا تھا، ’’میرکل کو بیدار ہونا ہو گا۔ مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے میرکل روسی صدر پوٹن اور ترک صدر ايردوآن کی نیک نیتی پر انحصار کر رہی ہیں، جو کبھی بھی کام نہیں کرے گی۔‘‘
حکمران اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں میرکل سے تارکین وطن کے حوالے سے سخت اقدامات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ ان مطالبات میں مہاجرین کی آمد کی تعداد کی حد مقرر کرنے اور سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کرنے جیسے انہتائی اقدامات بھی شامل ہیں۔
تاہم میرکل کے ایک قریبی معاون کا کہنا ہے کہ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے صرف ایک تہائی اراکین ہی اس قسم کے سخت اقدامات کے حامی ہیں۔
گزشتہ مہینے کے دوران موسم کی شدت کے باعث مہاجرین کی آمد میں بھی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ ایک حالیہ جائزے کے مطابق میرکل کی مقبولیت میں ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ ان کی پارٹی کی مقبولیت میں بھی اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے پہلے میرکل کی مقبولیت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی تھی۔