میرکل کے اتحادی مہاجرین کے مسائل کے حل میں تعاون سے مکر گئے
5 نومبر 2015صوبے باویریا کے وزیر اعلیٰ اور حکمران اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین (سی ایس یو) کے سربراہ ہورسٹ ذیے ہوفر نے گزشتہ روز ہی مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے انگیلا میرکل کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا تھا۔ جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کی سرحدیں آسٹریا سے ملتی ہیں۔ مہاجرین جرمنی میں عموماﹰ اسی راستے سے داخل ہوتے ہیں جس کے بعد مہاجرین سے متعلقہ وفاقی محکمہ انہیں ملک کے دیگر شہروں میں منتقل کرتا ہے۔
تاہم باویریا کے وزیر داخلہ ژوآخم ہرمان نے بدھ کے روز بتایا کہ صوبائی حکومت نے آئینی عدالت کے ایک سابق جج سے درخواست کی ہے کہ وہ برلن حکومت کی تارکین وطن سے متعلق پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد بتائیں کہ یہ پالیسی باویریا کی صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے یا نہیں۔
آئینی عدالت کے سابق جج اُوڈو ڈی فابیو نے ایک جرمن روزنامے سے کی گئی گفتگو میں بتایا کہ وہ مرکزی حکومت کی مہاجرین سے متعلق پالیسی پر ’غیرجانب دار‘ ماہرانہ رائے پیش کریں گے۔ عموماﹰ ایسی دستاویز قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار کی جاتی ہے۔ ذیے ہوفر نے اکتوبر میں مرکزی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر برلن نے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو صوبائی حکومت اس پالیسی کے خلاف آئینی عدالت سے رجوع کرے گی۔
بدھ کی صبح تین ہزار سے زائد مہاجرین آسٹریا سے جرمنی داخل ہونےکا انتظار کر رہے تھے۔ میرکل اور ذے ہوفر نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے مطابق جرمنی آنے والے مہاجرین کو سرحد پر ٹرانزٹ زونز میں رکھا جا سکتا ہے۔ ان زونز میں مہاجرین کو ان کی درخواستوں پر فیصلہ آنے تک رکھا جائے گا۔
گزشتہ روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ تارکین وطن کو پناہ دینے سے متعلق یورپی یونین کے قوانین، جنہیں ’ڈبلن قوانین‘ بھی کہا جاتا ہے، مہاجرین کے موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے نا کافی ہیں اور ان میں اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ میرکل کے مطابق ان قوانین ’’میں ایسی خامیاں ہیں کہ ہمیں بہر صورت اس کا از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔‘‘
جرمن چانسلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی سے یونان پہنچنے کے لیے پناہ گزینوں کو قانونی فراہم کرنا ضروری ہے اور اس حوالے سے مالی اخراجات اور مہاجرین کی تعداد کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں منصفانہ تقسیم کیا جانا چاہیے۔