ماضی کی غلطیوں سے بچنے کی خاطر ٹیکنالوجی کا نیا نظام
28 جولائی 2017’مزید فرانکو اے نہیں!‘ یہ ہے موٹو جرمن ادارے ’فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز‘ BAMF کا۔ جرمن فوجی فرانکو اے نے گزشتہ برس خود کو بطور مہاجر رجسٹر کرا لیا تھا۔ انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل اس فوجی کی اس کامیابی کو بی اے ایم ایف کی ایک بڑی غلطی قرار دیا گیا تھا۔
جرمنی: پناہ کا فیصلہ کرنے والوں کی اکثریت اہلیت نہیں رکھتی
جرمنی پناہ کی ایک لاکھ درخواستوں کا دوبارہ جائزہ لے گا
'جرمنی، سافٹ ویئر کے ذریعے مہاجرین کی ملکی شناخت میں ناکامی‘
اس پیشرفت کے بعد اس وفاقی جرمن ادارے نے مہاجرین اور تارکین وطن کی رجسٹریشن کے عمل میں اصلاحات کا عمل شروع کر دیا تھا۔ اس میں جدید ٹیکلنالوجی کو متعارف کرانا دراصل انہیں اصلاحات کے سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
جرمن حکام نے گزشتہ ہفتے ہی مہاجرین اور تارکین وطن کی شناخت کی خاطر یہ جدید نظام متعارف کرایا تھا۔
’فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز‘ کا کہنا ہے کہ اس نظام کی مدد سے رجسٹریشن کے عمل میں بہتری پیدا ہو گی۔
یہ ٹیکنالوجی زبان کے انداز کا تجزیہ کرنے کی اہل ہے، جس سے لوگوں کے اصل ملک اور علاقے کا تعین ممکن ہو سکے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔
اسی طرح ایک ایسا نیا سافٹ ویئر بھی متعارف کرایا گیا ہے، جو پناہ کے متلاشی افراد کی بائیو میٹرک تصاویر لے گا۔
ماضی میں پناہ کے متلاشی کچھ افراد خود کو کئی مقامات پر رجسٹر کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے، جس کی وجہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ساتھ ہی اس نطام کے تحت چلنے والے ایک کمپیوٹر پروگرام کی مدد سے عربی زبان کے ناموں کو ایک منظم انداز میں رومن لیٹرز میں لکھا اور پڑھا جا سکے گا۔
’فیڈرل آفس فار مائیگریشن اینڈ ریفیوجیز‘ نے بتایا ہے کہ جرمن صوبے سیکسنی کے بامبرگ سینٹر میں اس نئے نظام کا کامیاب ٹیسٹ کیا گیا ہے اور اس نظام کو جلد ہی ملک بھر میں بھی متعارف کرا دیا جائے گا۔ سیکسنی کے وزیر داخلہ مارکوس اولبرگ نے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ جرمنی کے تمام سولہ صوبوں میں جلد ہی اس نظام کو متعارف کرا دیا جائے گا۔
بی اے ایم ایف کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں پر جلد فیصلوں کے ساتھ ایسے افراد کی اپنے اپنے ممالک واپسی کے عمل میں بھی مدد کی جائے گی۔ حکام کو یقین ہے کہ اس نئی ٹیکنالوجی کے باعث پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی چھان بین اور ان پر فیصلے سنانے کے عمل میں بھی تیزی آئے گی۔