’نئے دور کی نئی باتیں‘
7 نومبر 2009وقت کے ساتھ ساتھ انسانی عادات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ بات پہناوے کی ہو یا رہن سہن کی، ہر دور کا آج اُس کے گزرے ہوئے کل سے مختلف ہوتا ہے۔ جرمنی میں آج سے چند سال پہلے تک بائیو فوڈ ہر شہر کے محض چند بڑے یا خاص طرح کے اسٹورز پر ہی دستیاب ہوتی تھی۔ آج لیکن بغیر کسی بھی طرح کے کیمیاوی مادوں کے تیار کی گئی ایسی اشیائے خوراک نہ صرف عام سپر مارکیٹوں میں دستیاب ہوتی ہیں، بلکہ اب تو ایسے ریستورانوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جو خام مال کے طور پر صرف بائیو مصنوعات ہی استعمال کرتے ہیں۔
جوشہر کولون کے ایک ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے امریکہ اور یورپ کے باشندوں کی غذائی ترجیحات اور ان کی کھانے پینے کی عادات کے بارے میں ایک تحقیقی مطالعہ کروایا۔ اس مطالعے کے نتائج ابھی حال ہی میں شہر کولون میں ہونے والی اشیائے خوراک کی ایک عالمی نمائش میں پیش کئے گئے۔
رائن گولڈ انسٹیٹیوٹ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’ان کی ریسرچ رپورٹ سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں اشیائے خورد و نوش سے متعلق بہت سے نئے خطرات، تصورات اور روایات نے جنم لیا ہے۔ ان عوامل کے بہت نمایاں اثرات اس وقت صارفین کی کسی بھی منڈی میں دستیاب کھانے پینے کی مصنوعات کے حوالے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
رائن گولڈ انسٹیٹیوٹ کی یہ رپورٹ صارفین کے رویوں میں ایک بنیادی تذبذب کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ تذبذب دراصل دو طرح کے رویوں کا مجموعہ ہے۔ ایک طرف تو لوگ معاشرے میں ایسی اشیائے خورد و نوش کو استعمال کرتے ہوئے خود کو نئی طرز اور جدید سوچ کا نمائندہ سمجھتے ہیں، جنہیں’کول فوڈ‘ کہا جاتا ہے، تو دوسری جانب ایسے کھانوں اور مشروبات کا استعمال صرف اپنے گھروں میں یا چھپ کر کیا جاتا ہے، جنہیں ’ٹَیبوفوڈ‘ کہا جاتا ہے۔ مطلب ایسی خوراک ہے جو بالعموم غیر صحت قرار دی جاتی ہے۔ اس کا سبب یہ سادہ سی انسانی نفسیات ہے کہ جو کام ممنوعہ ہو، وہی پر کشش محسوس ہوتا ہے۔
ٹَیبو فوڈ کے زمرے میں آنے والی عام مصنوعات میں مٹھائیاں، بہت زیادہ چربی والی خوراک، مکھن، پنیر، سوسیجز، فاسٹ فوڈ اور سوفٹ ڈرنکس کہلانے والے وہ مشروبات بھی ہیں، جنہیں عام طور پر بہت سی مائیں اپنے بچوں کو استعمال کرنے سے تو روک دیتی ہیں، مگر خود چھپ کو کھاتی پیتی ہیں۔ اس لئے کہ ان اشیاء کا استعمال ایک چھوٹے سے احساس جرم کو جنم دیتا ہے۔
رائن گولڈ انسٹیٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق اکثر انسان ایسا غیرارادی طور پر کرتے ہیں۔ کولون منعقدہ ’ورلڈ فوڈ شو‘ میں غذائی مصنوعات تیار کرنے والی بہت سی جرمن اور غیر ملکی کمپنیاں اپنے اپنے تشہیری حربوں میں صارفین کی نفسیات سے کھیلنے کی کوشش کرتی نظر آئیں۔ بے شمار مصنوعات پر ’لو فیٹ، لو شوگر اور کولیسٹرول فری‘ جیسے لیبل لگے ہوئے تھے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ صارفین یہ مصنوعات خریدیں۔
بیلجیئم کے ایک ادارے نے ایسے ویجیٹیرین اسٹیکس اور برگر متعارف کرائے جن کی پیکنگ پر لکھا تھا: ’فِٹ فوڈ‘، صحت مند فیٹی ایسِڈ اومیگا تھری سے بھرپور‘۔ اس طرح کی پیچیدہ تشہیر کا بھلا کیا فائدہ؟ رائن گولڈ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بات کھانے والے کو قائل کرنے کی ہے کہ جو کچھ بھی اس کے ہاتھ میں ہے، وہ دنیا کی سب سے صحت مند غذا ہے۔ اس لئے کہ اب درست اور صحت مند کھانوں کا انتخاب ٹیبل مینرز یا آداب دسترخوان سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ یعنی یہ نہیں، کہ آپ کیسے کھا رہے ہیں، بلکہ یہ، کہ آپ، کیا کھا رہے ہیں؟
رپورٹ: کشور مصطفی
ادارت : مقبول ملک