1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے پاکستانی فلم ساز، تخلیقی بلندیوں کا سفر جاری

Maqbool Malik21 اگست 2014

اگر آج کسی شخص سے یہ پوچھا جائے کہ کیا پاکستان میں کوئی فلمی صنعت موجود ہے، تو شاید وہ اس کا کوئی جواب نہ دے پائے، مگر حقیقیت یہ ہے کہ پاکستان میں اب فلمی پردے پر نہایت دلچسپ موضوعات کی عکاسی دیکھنے میں آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CykW
تصویر: sharmeenobaidfilms.com

شرمین عبید چنوئی کی دستاویزی فلم کے آسکر جیتنے کے بعد سے اب نئے فلم ساز اس شعبے میں مزید محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

سن 2012ء میں آسکر انعام وصول کرتے وقت شرمین عبید چنوئی نے یہ ایوارڈ پاکستان کی ان خواتین کے نام کیا تھا، جو ملک میں تبدیلی چاہتی ہیں۔ وطن واپسی پر اپنی پریس کانفرنس میں چنوئی کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے اب بہت سے آسکر انعام پاکستان آئیں گے۔

شرمین عبید چنوئی کی یہ بات کسی حد تک یوں درست ہے کہ اب پاکستان میں کئی نوجوان فلم ساز نت نئے موضوعات کو پردہ سیمیں پر لا رہے ہیں۔ لالی ووڈ جسے ایک خاص طرح کی فلموں کی چھاپ نے آ لیا تھا اور پاکستانی فلم بین کم کم ہی سینما گھروں کا رخ کرتے نظر آتے تھے، اب ان نئی فلموں کی جانب راغب ہوتے نظر آتے ہیں۔ ان فلموں میں ملک میں موجود اہم معاشرتی مسائل کو عمدگی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔

سن 2012ء میں آسکر کی 84 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پاکستانی فلم ساز کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔ شرمین عبید چنوئی کی فلم ’سیونگ فیسز‘ جس میں خواتین کے خلاف مظالم اور عزت کے نام پر خواتین پر ہونے والے تیزاب حملوں کو موضوع بنایا گیا تھا، اپنے اچھوتے موضوع کی وجہ سے دنیا بھر میں پسند کی گئی۔ کیا اس فلم کی وجہ سے پاکستان میں نوجوان فلم سازوں کو کسی طرح کی کوئی ترغیب ملی، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف پاکستانی اداکار اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں آرٹسٹِک ڈائریکٹر زین احمد کہتے ہیں، ’آسکر ایوارڈ ظاہر ہے کچھ نہ کچھ اثر تو ڈالتا ہے کیوں کہ اب بہت سے فلم ساز نت نئے موضوعات پر فلمیں بنا رہے ہیں۔ اب صرف محبت یا ایکشن ہی فلموں کا موضوع نہیں۔ ان فلموں میں ایک فرد کو معاشرے کے مختلف رویوں اور نظریات پر سوال اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے‘۔

پاکستان میں فلم سازی اب بھی کسی رسی پر چلنے جیسا عمل ہے، کیوں کہ معاشرتی قدامت پسندی کئی موضوعات پر طبع آزمائی کرنے سے روکتی ہے اور ان میں سے ایک مذہب بھی ہے۔ کچھ برس قبل جب مذہبی شدت پسندی کے موضوع پر فلم ’خدا کے لیے‘ منظر عام پر آئی، تو اس فلم کو دیکھنے کے لیے عوام کی ایک بڑی تعداد نے سینماگھروں کا رخ کیا، تاہم اس فلم پر تنقید بھی خاصی ہوئی تھی۔

Filmszene in Pakistan in 2014
پاکستان میں اب نوجوان فلمساز مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کر رہے ہیںتصویر: DW/T. Shahzad

اس تمام تر قدامت پسندی اور چند شدت پسند طبقوں کی جانب سے خطرات کے باوجود احمد پرامید ہیں کہ پاکستان میں نوجوان فلم سازوں کے پاس مختلف موضوعات پر فلمیں بنانے کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات حالات کی سنگینی اور خطرات تخلیقی صلاحیتوں کے نکھار میں مدد دیتے ہیں کیوں کہ حالات مشکل ہوں تو فنکار اپنی بات کو استعارات کی دھول میں لپیٹ کر پیش کر دیتا ہے اور باقی بات اپنے ناظر پر چھوڑ دیتا ہےکہ وہ خود ہی اس بالواسطہ بات کو سمجھ لے اور معانی نکال لے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں حال ہی میں ’بول‘ اور ’زندہ بھاگ‘ جیسی فلمیں منظر عام پر آئیں،جن میں معاشرتی مسائل کو دلچسپ انداز سے موضوع بنایا گیا ہے۔

جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی فلم ’نامعلوم افراد‘ بھی ایسے ہی معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ اس فلم کے نوجوان ڈائریکٹر نبیل قریشی نے ڈی ڈبلیو سے اپنی خصوصی بات چیت میں کہا، ظاہر ہے کچھ سرخ لکیریں ہیں، جن پر کھل کر بات نہیں ہو سکتی، جیسے مذہب کو موضوع بنانا یہاں آسان کام نہیں۔ تاہم ہم بالواسطہ طریقے سے کسی نہ کسی طرح بات اپنے ناظر تک پہنچانے کی کوشش کر لیتے ہیں۔‘

انہوں نے بھارتی اور پاکستانی فلموں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا، ’عموماﹰ بھارتی فلموں کا ایک خاص سانچہ ہوتا ہے، جس میں عام طور پر محبت کو موضوع بنایا جاتا ہے، تاہم ہمارے ہاں بے پناہ دلچسپ موضوعات موجود ہیں۔ ہمارا معاشرے ایسے موضوعات سے بھرا پڑا ہے اور ہم اب ایک ایک کر کے ان موضوعات کو پردہ سیمیں پر لا رہے ہیں۔‘

بالی ووڈ فلموں کی پاکستان میں بھرپور مانگ کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فلموں کا مستقبل خاصا روشن ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اگر تخلیقی سفر یونہی چلتا رہا، تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں اعلیٰ بین الاقوامی معیار کی فلمیں بننے لگیں گی اور فلم ساز متاثر کن موضوعات اور بہترین عکاسی کی وجہ سے آسکر انعام لیتے نظر آئیں گے۔