1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا: اسکول پر حملے میں اڑتالیس بچے ہلاک، عالمی برادری کی شدید مذمت

عاطف بلوچ11 نومبر 2014

شمالی نائجیریا کے ایک اسکول میں ہوئے بم دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم اڑتالیس بچے ہلاک جبکہ 79 زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ خود کش حملہ آور اسکول کا یونیفارم پہنے ہوا تھا۔ واشنگٹن نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Dl1G
تصویر: picture-alliance/Ap Photo/A. Adamu

امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے ابوجہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ خونریز حملہ پوٹیسیکوم کے علاقے میں واقع گورنمنٹ سائنس سيکنڈری اسکول میں پیر کے دن اس وقت ہوا، جب بچے اسکول اسمبلی میں شریک تھے۔ طبی حکام نے اس کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حملہ بوکو حرام نامی اسلامی شدت پسند تنظیم نے کیا ہے۔

مغربی تعلیم کو حرام قرار دینے والا اسلامی انتہا پسند گروہ بوکو حرام پہلے بھی شمالی علاقوں میں متعدد اسکولوں پر حملے کر چکا ہے۔ رواں برس کے آغاز پر بوکو حرام کے جنگجوؤں نے چیبوک کے ایک اسکول سے دو سو بچیوں کو اغوا بھی کر لیا تھا، جن کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں مل سکا ہے۔

Karte Nigeria Potiskum

اس تازہ کارروائی کے بعد یوب ریاست کے گورنر نے پوٹیسیکوم کے تمام علاقوں کے اسکولوں کو فوری طور پر غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے کہ وہ بوکو حرام کی کارروائیوں کا روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک طالب علم موسی ابراہیم یحییٰ نے اے پی کو بتایا کہ اسکول میں منعقد ہونے والی ہفتہ وار اسمبلی میں دو ہزار بچے شریک تھے، جب حملہ آور نے يہ بم دھماکا کیا۔ اس سترہ سالہ بچے کے بقول، ’’صبح ساڑھے سات بجے پرنسپل نے خطاب کرنا تھا، لیکن اس سے پہلے ہی ایک زور دار دھماکا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ بچے چیخنے اور رونے لگے۔ دھماکے کے بعد میں نے جب خود کو دیکھا تو میں خون تربتر تھا۔‘‘

عینی شاہدین کے بقول حملہ آور نے دھماکا خیز مواد اپنے اسکول کے بستے میں چھپا رکھا تھا۔ ہلاک شدگان کی عمریں گیارہ اور بیس برس کے درمیان بتائی گئی ہیں۔

جب پولیس اور سکیورٹی اہلکار اس خود کش بم حملے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچے تو مقامی آبادی نے ان پر پتھراؤ بھی کیا اور کہا کہ ملکی فوج ان علاقوں میں گزشتہ پانچ برس سے جاری اسلامی انتہا پسندی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی یوب ریاست کے صوبائی دارالحکومت پوٹیسیکوم میں اعتدال پسند مسلمانوں کے ایک جلوس پر ہوئے حملے میں بھی تیس افراد مارے گئے تھے۔

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ ماہ ابوجہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بوکو حرام کے ساتھ فائر بندی کی ایک ڈیل ہو گئی ہے لیکن دوسری طرف بوکو حرام کے جنگجوؤں نے ایسی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے حملوں میں تیزی پیدا کر دی ہے۔

دوسری طرف واشنگٹن حکومت نے اس بہیمانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین ساکی نے کہا، ’’ہماری ہمدردی متاثرین اور ان کے گھر والوں کے ساتھ ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی شمالی نائجیریا میں تعلیمی مراکز پر آئے روز ہونے والے حملوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس تازہ حملے کی مذمت کی ہے۔ یونیسیف نے کہا ہے کہ اسکولوں اور بچوں پر ہونے والے یہ حملے دراصل نائجیریا کے مستقبل پر حملے ہیں۔