نائن الیون، نئے ثبوت مگر تفصیلات نہیں
10 اپریل 2011نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ کہلائے جانے والے خالد شیخ محمد اور ان کے چار ساتھیوں کے خلاف یہ ثبوت اس وقت عدالت کے حوالے کیے گئے جب یہ مقدمہ سول کے بجائے فوجی عدالت میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے مقدمے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وزارت دفاع کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس کیس کے لیے فوجی عدالت ہی بہتر رہے گی۔ ہولڈر کا کہنا ہے ان پانچوں افراد کے خلاف فیڈرل کورٹ میں بھی کارروائی کی جا سکتی تھی۔ ’’ کانگریس کی جانب سے گوانتانامو کے قیدیوں کے مقدمے سول عدالت میں چلانے کے خلاف فیصلہ کیے جانے کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی ہے‘‘۔ ایرک ہولڈر نے مزید کہا کہ اب اس مقدمے کی سماعت گوانتانامو جیل میں قائم فوجی عدالت میں ہوگی۔
2001ء میں ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں کو اب تقریباً دس سال گزر چکے ہیں تاہم اس حوالے سے اب جو تازہ تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ پینٹاگون نے اس حملے کے حوالے سے تیار کئے جانے والے منصوبے کی ایک مرتبہ پھر مکمل تحقیقات کی ہیں۔ ان میں رقم کی ترسیل، ٹکٹس، ویزے کے حصول کے لیے دی جانے والی درخواستیں اور ٹیلیفون پر ہونے والی بات چیت نے اس مقدمے کی از سر نو تیاری میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
خالد شیخ محمد نے بتایا کہ حملوں کی منصوبہ بندی 1999ء میں کی گئی تھی۔ امریکہ پر اس نوعیت کا حملہ کرنے کی تجویز اسامہ بن لادن کی تھی۔ خالد شیخ محمد کے بقول وہ آخر تک اس دہشت گردانہ کارروائی کی نگرانی کرتے رہے۔ خالد شیخ محمد پہلے ہی امریکی صحافی ڈینیئل پرل کو قتل کرنے اور 1993ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے بم حملوں کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ان حملوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : شامل شمس