1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناروے، آئرلینڈ، اسپین فلسطینی ریاست کو جلد تسلیم کر لیں گے

22 مئی 2024

ناروے کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دو دیگر یورپی ممالک آئرلینڈ اور اسپین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو جلد ہی تسلیم کر لیں گے۔ اسرائیل نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے ان ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4g8Xq
آئرش وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ان تینوں ملکوں کا ایک مربوط اقدام ہے
آئرش وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ان تینوں ملکوں کا ایک مربوط اقدام ہےتصویر: Artur Widak/NurPhoto/picture alliance

آئرلینڈ نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ دیگر یورپی ممالک اسپین اور ناروے کے ساتھ مل کر 28 مئی کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لے گا۔

آئرش وزیر اعظم سائمن ہیرس نے کہا کہ یہ ان تینوں ملکوں کا ایک مربوط اقدام ہے۔ انہوں نے اسے ''آئرلینڈ اور فلسطینیوں کے لیے ایک تاریخی اور اہم دن‘‘ قرار دیا۔

سائمن ہیرس کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد دو ریاستی حل کے ذریعے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے تصفیے میں مدد کرنا ہے۔

اسپین فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا

ہسپانوی حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ 28 مئی کو ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گی۔

ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے یہ اعلان بدھ کے روز ملکی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سانچیز نے مارچ میں کہا تھا کہ ان کی حکومت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں پہلا قدم اٹھائے گی اور دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔

سانچیز نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں حمایت حاصل کرنے نیز غزہ میں ممکنہ فائر بندی کے خاطر یورپ اور مشرق وسطی کے ملکوں میں مہینوں گزارے۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ وہ اس مقصد کے لیے وقف ہیں۔

اسرائیل فلسطین تنازعے کا حل اتنا مشکل کیوں؟

ناروے کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان

قبل ازیں ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہر اسٹوئرے نے کہا کہ ان کا ملک 28 مئی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے بہترین مفاد میں ہے۔

یورپی ممالک میں یہ رائے پختہ ہو رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے تنازعے کا دو ریاستی حل ضروری ہے۔ ناروے گوکہ یورپی یونین کا رکن ملک نہیں تاہم فلسطینی امور سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ وہ اوسلو معاہدے میں اہم کردار اداکرنے والے ملک کے طور پر بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو اپنی شعوری ذمہ داری سمجھتا ہے۔

ناروے کے وزیر اعظم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''ایک آزاد ریاست فلسطین کا بنیادی حق ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ناروے اور آئرلینڈ میں اسرائیلی سفیروں کو فوراً واپس وطن لوٹنے کا حکم دے دیا ہےتصویر: Lev Radin/Pacific Press/picture alliance

اسرائیل سخت ناراض

ناروے کے اعلان پر اسرائیل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کو یک طرفہ طور پر نافذ کرنے کو مسترد کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ''انتہا پسندی اور عدم استحکام کو ہوا دینے‘‘ اور ''حماس کے ہاتھوں مہرا بننے‘‘ کے مترادف ہو گا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے ناروے اور آئرلینڈ میں اسرائیلی سفیروں کو فوراً واپس وطن لوٹنے کا حکم دے دیا ہے۔ کاٹز کا کہنا تھا، ''آج میں آئرلینڈ اور ناروے کو سخت پیغام دے رہا ہوں کہ اسرائیل اس اقدام پر خاموش نہیں بیٹھے گا۔ میں نے صلاح و مشورے کے لیے ڈبلن اور اوسلو سے اپنے ملک کے سفیروں کو واپس لوٹنے کا حکم دے دیا ہے۔‘‘

کاٹز نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اسپین نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو میڈرڈ سے بھی اسرائیلی سفیر کو واپس بلا لیا جائے گا۔

کاٹز کا کہنا تھا، ''ناروے اور آئرلینڈ آج فلسطینیوں اور دنیا کویہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی سود مند ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ ''یہ تو حماس اور ایران کے جہادیوں کے لیے ایک انعام ہو گا۔‘‘

خیال رہے کہ اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین اور کئی دیگر ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

ج ا / ص ز، م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)