ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں چھ ہزار افراد گرفتار
17 جولائی 2016استنبول سے اتوار سترہ جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جمعہ پندرہ جولائی کی رات مسلح افواج کے ایک دھڑے نے حکومت کا تختہ الٹنے کی جو کوشش شروع کی تھی، اس میں مجموعی طور پر 265 افراد ہلاک اور ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں ایک جنرل سمیت بہت سے باغی فوجی افسران اور سپاہی بھی شامل تھے جبکہ باقی یا تو فوج کے حکومت نواز دھڑے اور پولیس کے اہلکار تھے یا پھر وہ عام شہری جنہوں نے اپنے اپنے طور پر اس فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی۔
ایردوآن انتظامیہ کے خلاف اس بغاوت پر ہفتہ سولہ جولائی کی صبح تک قابو پا لیا گیا تھا۔ ترک وزیر انصاف باقر بوزداگ نے آج استنبول میں بتایا کہ ناکام بغاوت کے بعد اتوار کی دوپہر تک قریب چھ ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا تھا، جن میں سے تقریباﹰ نصف فوجی ہیں۔ ان باغی فوجیوں میں کم ازکم پانچ جنرل اور انتیس کرنل کے عہدے کے افسران ہیں جبکہ بہت سے دیگر ان سے نچلی سطح کے افسر تھے۔
وزیر انصاف بوزداگ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان گرفتاریوں کے علاوہ فوج اور عدلیہ میں فرائض انجام دینے والے ہزاروں دیگر اہلکاروں کو برطرف بھی کر دیا گیا ہے۔ باقر بوزداگ نے کہا، ’’یہ اقدامات سرکاری شعبے کی تطہیر کے لیے اس ’کلین اپ‘ کا حصہ ہیں، جس میں سب سے زیادہ توجہ مسلح افواج اور عدلیہ پر دی جا رہی ہے۔‘‘´
سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نے لکھا ہے کہ وزیر انصاف نے یہ بھی کہا کہ جن سرکاری اہلکاروں کو برطرف یا گرفتار کیا گیا ہے، حکومت کی طرف سے ان سے متعلقہ قانونی ضابطوں پر لازمی لیکن شفاف عمل درآمد کے لیے کارروائی بھی ساتھ ساتھ کی جا رہی ہے۔
کل ہفتہ کے روز ملنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے ملکی عدلیہ میں ججوں یا پراسیکیوٹرز کے طور پر کام کرنے والے قریب تین ہزار اہلکاروں کو بھی معطل کر دیا ہے۔ اس بارے میں وزیر انصاف نے آج یہ وضاحت کی کہ عدلیہ کے یہ اہلکار معطل نہیں بلکہ ملازمتوں سے برطرف کیے گئے ہیں۔
باقر بوزداگ نے صحافیوں کو بتایا، ’’ملک کے اعلیٰ ترین جوڈیشل بورڈ کے متعد ارکان کے برطرف کیے جانے کے علاوہ تین ہزار کے قریب چھوٹی عدالتوں کے جج بھی برطرف کر دیے گئے ہیں۔ ان کی تعداد 2745 بنتی ہے۔ اس کے علاوہ 250 ججوں اور پراسیکیوٹرز کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس ناکام بغاوت کی پشت پناہی کا الزام امریکا میں مقیم ترک نژاد مسلم مبلغ اور اپنے ایک سابقہ حلیف فتح اللہ گؤلن پر لگایا ہے، جنہوں نے ایردوآن کے بقول ترکی میں ایک ’متوازی ریاستی ڈھانچہ‘ قائم کر رکھا ہے۔ ایردوآن نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا گؤلن کو ملک بدر کر کے ترکی کے حوالے کرے۔
آج اتوار کے روز ترکی میں جمعے کی رات اور ہفتے کے دن ناکام بغاوت میں مارے جانے والے ان سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی، جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر باغی فوجیوں کی مخالفت میں سول حکومت کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اتوار کے روز مختلف شہروں میں ان ہلاک شدگان کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بھی بہت سے اجتماعات منعقد کیے گئے۔
اسی دوران ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے آج اپنی سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کی جانے والی ایک تقریر میں کہا کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں اب معمول کی زندگی پوری طرح بحال ہو چکی ہے۔