1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف کی نئی حکومت کے سو دن، رد عمل ملا جلا

شکور رحیم، اسلام آباد6 ستمبر 2013

پاکستان میں گیارہ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے سو دن مکمل ہونے کو ہیں۔ حکومت کی ان سو دنوں کی کارکردگی پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/19dDA
تصویر: Reuters

حکمران جماعت کے سربراہ اور وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ حکومت ملک کو درپیش مختلف چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پہلے سو دنوں میں اہم اقدامات کرے گی۔ حکومت کو درپیش مسائل میں توانائی کے بحران، دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال، افراط زر، غربت، مہنگائی، بے روزگاری پر قابو پانےاورمعیشت کی بحالی کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے علاوہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی تعلقات کا قیام بھی شامل ہیں۔

Drohne vom Typ MQ-1 Predator beim Landeanflug
پاکستان میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی ڈرون حملے ابھی بند نہیں ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور مضبوطی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ کی جائنٹ ڈائریکٹر آسیہ ریاض کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی سو روزہ کارکردگی مجموعی طور پر بہتر نظر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی تشکیل دینے اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ آسیہ ریاض کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دوسری جماعتوں کو ملنے والے مینڈیٹ کا احترام کرنے سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ تاہم ان کے بقول عوام حکومت سے اس سے زیادہ پیش رفت کی توقع کر رہے تھے۔

آسیہ ریاض نے کہا، ’’جس بنیاد پر لگتا تھا کہ پی ایم ایل (این) کی حکومت کو لوگوں نے ووٹ دیا ہے، وہ یہ تھی کہ یہ تجربہ کار اور حکومت کے لیے تیار ہیں۔ وہ کم از کم کابینہ کی تشکیل میں نظر نہیں آیا۔ دوسری جانب کم از کم حکومت نےچند فیصلے ایسے کیے ہیں جن سے سمت کی حد تک چیزیں درست نظر آرہی ہیں۔ اگرچہ شہریوں کی خواہش ہے کہ سو دنوں میں زیادہ پیش رفت ہونی چاہیے تھی۔‘‘

بعض حلقوں کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی کا اعلان کرنے میں تاخیر اور تحریک طالبان کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھنے کے باوجود اس کے ساتھ مذاکرات کی خواہش پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ قبائلی علاقوں میں جاری امریکی ڈرون حملوں کو رکوانے میں اپنی ناکامی بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی اور سلامتی کے معاملات کو سنجیدگی سے لیا ہے اور کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کی تشکیل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حکمت عملی بھی بہتر ہے اور اسی کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات نسبتاﹰ کم ہوئے ہیں۔

Kaschmir Pakistan Indien Jammu Kashmir Chakothi
حالیہ ہفتوں میں بھارت کے ساتھ کنٹرول لائن پر کشیدگی کا باعث بننے والے کئی واقعات پیش آ چکے ہیںتصویر: DW

عامر رانا کے مطابق امریکی ڈرون حملے مکمل طور پر رکے تو نہیں لیکن ان میں واضح کمی آئی ہے۔ انسداد دہشت گردی کی قومی پالیسی کے اعلان میں تاخیر سے متعلق عامر رانا نے کہا کہ جس طرح سلامتی کی نئی پالیسی کے لیے مشاورت ہو رہی ہے، وہ ایک مثبت قدم ہے، ’’یہ پہلی حکومت ہے جس نے داخلی سلامتی کے معاملے کو اپنے مینڈیٹ میں شامل کیا ہے۔ اس سے پہلے کی حکومت نے پوری کی پوری سلامتی پالیسی فوجی اسٹبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے جب سویلین قیادت پالیسی ترتیب دے گی تو اسے کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔‘‘

توانائی کے بحران خصوصاﹰ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کا پانچ سو ارب روپے کا زیر گردش قرضہ ادا کیا ہے جس سے بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ میں کسی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

دو روز قبل آئی ایم ایف نے مشکلات کا شکار پاکستانی حکومت کے لیے 6.2 ارب ڈالر کا قرضہ بھی منظور کیا، جس سے ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گراوٹ کا شکار پاکستانی روپے کی قدر کو کچھ استحکام ملا اور جمعے کے روز کراچی میں ملک کے سب سے بڑے اسٹاک ایکسچینج میں بھی کاروبار میں تیزی دیکھنے میں آئی۔

تاہم پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے لیے اقتصادی امور کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ حکومت کو افراط زر اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بہتر پالیسیاں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دعووں کے باوجود سرکاری اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔

Taliban Angriff gegen Gefängnis in Pakistan
طالبان کے خونریز حملوں کا سدباب، ایک چیلنج جو ابھی تک چیلنج ہی ہےتصویر: Reuters

خلیق کیانی نے کہا، ’’تین مہینوں کے دوران کوئی ایک بھی کارپوریشن ایسی نہیں، جس میں آزاد طریقے سے میرٹ پر شفافیت کے ساتھ نئی انتظامیہ آئی ہو۔ سرکاری اداروں کی جو حالت پہلے چل رہی تھی، وہ آج بھی ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ پی آئی اے ہر روز بیل آؤٹ پیکج مانگتی ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کا برا حال ہے۔ اس کی پیداوار دس سے گیارہ فیصد تک رہ گئی ہے۔ ان کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں۔ حکومت تنخواہیں دے رہی ہے۔ یہی حال واپڈا اور دیگر کارپوریشنوں کا بھی ہے۔ ریلوے کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ تو سرکاری اداروں کی بہتری کے لیے کوئی واضح سمت نظر نہیں آ رہی۔‘‘

ادھر نواز شریف کی حکومت نے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ نسبتاﹰ خوشگوار تعلقات کا آغاز کیا تھا لیکن وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا اور گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان غیر مستقل سرحد یعنی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے دوطرفہ تعلقات نئے سرے سے کشیدہ ہوگئےتھے، جن میں سرد مہری اب بھی قائم ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید