1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل انعام برائے ادب معروف ادیبہ ایلس منرو کے نام

عاطف توقیر10 دسمبر 2013

رواں برس کا نوبل انعام برائے ادب معروف کینیڈین ادیبہ ایلس مُنرو کو دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ غیر سیاسی شخصیت مُنرو نے اپنی تحریروں کے ذریعے انسانی حِسیات کو بیدار کیا۔

https://p.dw.com/p/1AVzH
تصویر: picture alliance/AP Photo

ایلس مُنروکی تحریرں انسانی جذبوں سے عبارت ہیں، جن میں اس بات کی اہمیت اجاگر کی گئی کہ چیزوں سے متاثر ہونے کی بجائے اپنے لیے حقیقی راحت کی تلاش کتنی اہم ہے۔

سویڈش اکیڈمی کی جانب سے ایلس مُنرو کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی ہیں کہ لوگ اپنے جذبوں کی اہمیت سمجھیں۔ 82 سالہ مُنرو اپنی طویل العمری اور صحت کے مسائل کی وجہ سے یہ انعام وصول کرنے خود تو سویڈن نہیں آ سکتیں، تاہم ان کی جانب سے ایک ویڈیو پیغام ارسال کیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں جمعرات کے روز دیا جائے گا۔

نوبل انعام برائے ادب کی جیوری نے منرو کو ’چیمپیئن آف کنٹمپرری شارٹ سٹوری‘ یا ’موجودہ عہد میں مختصر کہانیوں کی قائد‘ قرار دیتے ہوئے ان کے لیے اس انعام کا اعلان کیا۔ اس مرتبہ کسی سیاسی بنیاد کی بجائے ادب کا یہ انعام خالصتاﹰ ادبی تناظر میں تفویض کیا گیا۔ جیوری کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، اس انعام کے ذریعے مُنرو کے فن کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جو چند صفحات پر بے شمار احساسات تحریر کر دیتی ہیں۔ اپنے ویڈیو پیغام میں مُنرو نے بھی جذبوں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا، ’ہر زندگی اور ہر ماحول جذبوں کی وجہ سے دلچسپ ہو سکتا ہے۔‘

Alice Munro Literaturnobelpreisträgerin Buchcover
ایلس منرو مختصر کہانیاں کے میدان میں نمایاں مقام کی حامل ہیںتصویر: Getty Images/AFP

واضح رہے کہ اب تک مُنرو کی مختصر کہانیوں کے 13 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا ہے۔ تاہم مُنرو کی جانب سے مزید ادبی کام اب شاید سامنے نہ آ سکے، کیوں کہ کچھ عرصے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ اب مزید کہانیاں تحریر نہیں کریں گے۔ نوبل انعام برائے ادب کی سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ یہ انعام کسی کینیڈین ادیب کو ملا ہے، جب کہ کسی ادیب کو نوبل انعام دیے جانے کا یہ 13واں واقعہ ہے۔

مُنرو کے فن کے مداح اور آسٹریا کے معروف ادبی نقاد زِگرِڈ لؤفلر نے اس بابت ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’ان کا فن پوری انسانی زندگی کو کتاب کے ایک صفحے پر سمیٹ دینے کی طاقت کا حامل ہے۔‘

دس جولائی 1931 کو پیدا ہونے والی ایلس منرو نے ادب تخلیق کرنے کا عمل نسبتا دیر سے شروع کیا۔ انہوں نے پہلے اپنے تینوں بچوں کی پروش کی اور اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں 40 برس کی عمر میں خود کو ادب کے لیے وقف کیا۔ جرمنی میں منرو کی کتابوں کے ناشر ایس فِشر سے وابستہ ہنس ژورگِن بالمیس کے مطابق، ’اپنے ملک میں انہیں کینیڈا کے ادب کی ہیروئن اور مارگریٹ اتوُود کی مدمقابل سمجھا جاتا ہے۔‘

مُنرو کی جانب سے مزید کہانیاں نہ لکھنے کے اعلان کے بعد ان کی آخری کتاب کی منتظر نگاہیں اور بھی بے تاب دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی نئی اور غالباﹰ آخری کتاب ڈیئر لائف یا پیاری زندگی شاید نوبل انعام کی تقریب کے روز ہی شائع کر دی جائے گی۔ تاہم 82 سالہ مُنرو نے اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ یہ اعلان کیا کہ وہ اب مزید نہیں لکھیں گے، تاہم وہ کبھی کہانیاں تخلیق کرنے سے خود کو روک نہ پائیں۔