نہ واپسی کا اعلان، نہ اقتدار چھوڑنے پر راضی
16 جولائی 2011علی عبداللہ صالح ملک میں نہ ہونے کے باوجود اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے نا صرف اپنی صحت داؤ پر لگا دی ہے بلکہ وہ عوام کے صبر و تحمل کا بھی امتحان لے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں صدر صالح کو اس نیٹ ورک کا تعاون ہے، جو انہوں نے دوران اقتدار بنایا ہے۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ صدر صالح کے بغیر یمن کی داخلی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ کئی مہینوں سے یمنی اپوزیشن صدر صالح کے خلاف تحریک چلا رہی ہے کہ انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا جائے، لیکن وہ ابھی تک اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
یمنی امور کی ماہر انّیٹے بُکس کہتی ہیں کہ صدر صالح یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی میں یمن کے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت تو اپوزیشن صدر صالح کو اقتدارسے بے دخل کرنے کے لیےمتحد ہے۔ تاہم جب وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے تو کیا اس وقت بھی وہ خود کو یکجا رکھ سکیں گے؟ یہ امر ابھی تک غیر واضح ہے۔
انّیٹے بُکس کے بقول علی عبداللہ صالح کے بعد صرف ایک مضبوط اور بااختیار حکومت ہی ملک کا انتظام چلا سکتی ہے۔ صدر صالح اپنے تیس سال سے زائد دور اقتدار کے دوران بھی ملک کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ یمن میں بے روز گاری عروج پر ہے اور غربت اور ناخواندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ساتھ ہی علی عبداللہ صالح کو اس بات کا بھی بہت اچھی طرح انداز تھا کہ کس طرح سے قبائلی رہمناؤں کے ساتھ مل کر کام کیا جاتا ہے۔
انیٹے بکس کے بقول علی عبداللہ صالح نے بہت ہی ماہرانہ انداز میں قبائلی عمائدین کے ساتھ تعلقات استوار رکھے ہیں۔ انہوں نے وہاں بھی ایک حمایتی گروہ قائم کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ صدر صالح کی بات ملک کے ان حصوں میں بھی سنی جاتی تھی، جہاں وہ جا بھی نہیں سکتے تھے۔
ساتھ ہی علی عبداللہ صالح کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ سعودی عرب اور مغربی ممالک کو یہ ڈر ہے کہ یمن ایک ناکام ریاست میں تبدیل ہو کر دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا گڑھ بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ان کا اقتدار میں رہنا بہت ضروری ہے۔
رپورٹ: انے المیلنگ
ترجمہ: عدنان اسحاق
ادارت : شامل شمس