’نیتن یاہو پر اعتماد نہیں رہا‘ موشے یالون
20 مئی 2016اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے بدھ 18 مئی کو اعلان کیا تھا کہ اپنی مخلوط حکومت میں انہوں نے ایک اور جماعت کو شامل کر لیا ہے۔ اس سے ان کی مراد ایوگڈور لیبرمن کی انتہائی قدامت پسند یسرائیل بیت نو جماعت تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے بدھ کے دن ہی لیبرمن کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپنے کا عندیہ بھی دیا۔ نیتن یاہو کے اس اعلان کے بعد موجودہ وزیر دفاع موشے یالون نے آج اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا، ’’میں نے وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا ہے کہ ان کے رویے اور سیاسی حالات میں ہونے والی تازہ تبدیلی کے وجہ سے ان پر اعتماد میں کمی ہوئی ہے۔ میں حکومت اور اپنی پارلیمانی نشست سے دستبردار ہو رہا ہوں اور اپنی سیاسی زندگی میں بھی وقفہ لے رہا ہوں۔‘‘
اسرائیل میں وزیر دفاع کا منصب انتہائی اہم تّصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یالون کے جانے سے داخلی سطح پر نیتن یاہو کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ جبکہ مغربی ممالک کا بھی اسرائیلی حکومت پر اعتماد کم ہو سکتا ہے۔ موشے یالون اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں اور انہی کی کوششوں کے وجہ سے واشنگٹن اور یروشلم کے باہمی روابط قدرے استوار رہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو امریکی صدر باراک اوباما کی متعدد پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان دونوں رہنماؤں کے تعلقات بھی کبھی خوشگوار نہیں رہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے موشے یالون کی استعفے پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ یسرائیل بیت نو پارٹی کی شمولیت کے بعد نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کو 120 رکنی پارلیمان میں 67 نشستیں حاصل ہو گئی ہیں۔ اس سے قبل ان کے پاس صرف61 ارکان تھے۔ ایک نجی ٹیلی وژن کےجائزے کے مطابق51 فیصد اسرائیلی یہودی وزیر دفاع کے طور پر یالون کے حق میں ہیں جبکہ 27 فیصد وزیر دفاع کے طور پر لیبرمن کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
امریکا کی جانب سے ابھی تک اسرائیلی کابینہ میں ہونے والی اس تبدیلی پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم ایک مصری سفارت کار نے لیبرمن کو وزیر دفاع بنانے کی تجویز پر حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔