سویڈن ترکی کے سکیورٹی خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہے، نیٹو
14 جون 2022نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے 13 مئی پیر کے روز کہا کہ نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی اپنی کوشش کے تحت سویڈن ترکی کے ''تحفظات دور کرنے کے لیے'' تیار ہے۔ اسٹاک ہوم کی عشروں پر محیط عسکری پالیسی غیر جانبدار رہی ہے اور دفاعی نکتہ نظر سے وہ کسی بھی اتحاد کا حصہ نہیں رہا ہے۔
تاہم یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں خطے کے سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوا ہے، اسی لیے فن لینڈ اور سویڈن کو بھی مجبوراً نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ دونوں ممالک نے اس کے لیے گزشتہ ماہ درخواست بھی دی تھی۔لیکن ترکی نے اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ جب تک دونوں ملک انقرہ کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں نہیں کرتے اس وقت تک وہ نیٹو میں ان کی شمولیت کی مخالفت کرے گا۔ اسی رکاوٹ کے سبب دونوں ملکوں کی درخواستیں التوا کا شکار ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے دونوں ممالک پر کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے وابستہ کرد عسکریت پسندوں کی حمایت کا الزام لگایا ہے۔ ترکی اس گروپ کو دہشت گرد تصور کرتا ہے۔ سویڈن نے شام میں در اندازی کے بعد سن 2019 میں ترکی پر ہتھیاروں کی بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
انہیں وجوہات کے سبب انقرہ نے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو اتحاد میں رکنیت کو ویٹو کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے درخواستوں پر اسی صورت میں غور کیا جا سکتا ہے جب اتحاد کے تمام 30 اراکین اس سے متفق ہوں، بصورت دیگر شمولیت تو دور کی بات درخواست پر بھی غور نہیں کیا جا سکتا۔
سویڈن نے ترکی کے تحفظات کے حوالے سے کیا اقدام کیے؟
سویڈن کی وزیر اعظم میگڈالینا اینڈرسن نے کہا ہے کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات آتی ہے تو ان کا ملک ترکی کے خدشات کو ''بہت سنجیدگی سے'' لیتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سویڈن کے، ''عزائم یہ ہیں کہ ہم ان معاملات کو کسی بھی طرح حل کر لیں۔''
نیٹو کے سکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ سویڈن نے، ''انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنے قانون کو پہلے ہی سے تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ سویڈن، ''اب اس بات کو یقینی بنائے گا کہ نیٹو کے رکن کے طور پر ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق اس کا قانونی ڈھانچہ اتحادیوں کے لیے نئے وعدوں کے ساتھ ان کی مستقبل کی حیثیت کی عکاسی کرے۔''
اطلاعات کے مطابق یکم جولائی کو سویڈن کے انسداد دہشت گردی سے متعلق قانون میں تبدیلی کی جائے گی۔ ادھر ہتھیار برآمد کرنے والی ملک کی خود مختار ایجنسی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ نیٹو کی رکنیت کے ساتھ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گی۔
جنرل اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا کہ ''یہ ترکی کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنے کے لیے دو اہم اقدامات ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان مسائل کو جلد از جلد حل کر لیا جائے، تاکہ فن لینڈ اور سویڈن کو جلد از جلد نیٹو کے مکمل رکن کے طور پر خوش آمدید کہا جا سکے۔''
کب تک معاملہ حل ہونے کی توقع ہے؟
اسٹولٹن برگ نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ آیا یہ معاملہ 28 جون کو میڈرڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس سے پہلے، یا پھر 11 ستمبر کو سویڈن کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے، حل ہو سکے گا یا نہیں۔
البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ نیٹو کے اتحادیوں نے سویڈن کو اس دوران تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانیاں کرائی ہیں، جب تک اتحاد میں مکمل رکنیت کے لیے اس کی درخواست زیر غور ہے۔ اسٹولٹن برگ نے اس عزم کا اظہار بھی کیا اگر ان پر حملہ کیا گیا تو، ''یہ ناقابل تصور بات ہے کہ نیٹو کے اتحادی اس پر اپنا کوئی رد عمل ظاہر نہ کریں۔''
اسٹولٹن برگ نے کہا، ''سکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، اب ''سویڈن درخواست دینے سے پہلی والی پوزیشن سے کافی بہتر مقام پر ہے۔''
سویڈن میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو سویڈن اور ترکی کے ساتھ ''جلد از جلد'' تنازعے کو حل کرنے کے لیے ''کافی محنت اور فعال طور پر'' کام کر رہا ہے۔
اسٹولٹن برگ اتوار کو فن لینڈ میں تھے، جہاں انہوں نے کہا تھا کہ ترکی کے ''تحفظات جائز'' ہیں اور انہیں سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)