نیپال جیسا چھوٹا ملک بھارت کے سامنے کیسے ڈٹ گیا ہے؟
23 جون 2020اس سے قبل نیپال نے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا تھا جس میں بعض ایسے علاقوں کو نیپال کاحصہ دکھایا گیا جسے بھارت اپنا قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی سرحد پر فائرنگ کے ایک واقعہ میں ایک بھارتی شہری کی موت بھی واقع ہوچکی ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران پیش آنے والے ان واقعات پر بھارت سخت خفا ہے۔ تاہم یہ واقعات بھارت کے اپنے ایک قریبی پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات میں بڑھتی ہوئی خلیج کا پتہ دیتے ہیں۔
نیپال کی ندیوں سے آنے والا پانی ہر سال برسات کے دنوں میں جنوبی بہار کے لیے بہت بڑی تباہی لے کر آتا ہے۔ ہزاروں ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، مکانات منہدم ہوجاتے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں۔ اس مصیبت پر قابو پانے کے لیے بھارت نے نیپال کی سرحد سے ملحق بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں لال باکیا ندی پر کئی برس پہلے گنڈک ڈیم تعمیر کرایا تھا جسے تقریباً ہرسال مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس بار بھی جب بھارتی حکام پشتے کی مرمت کے لیے گئے تو نیپالی حکام نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اس پشتے سے پانچ سو میٹر تک کا علاقہ نیپال کا ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکام نیپال کے اس رویے سے حیرت زدہ رہ گئے کیوں کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ بھارت کی پریشانی یہ بھی ہے کہ برسات کا موسم شروع ہوچکا ہے اور سیلاب کا خطرہ سرپر آن کھڑا ہے۔ بہار کی حکومت نے بھارتی وزارت خارجہ سے رجوع کیا ہے اور اپیل کی مرکزی حکومت اس مسئلے کو جلد سے جلد حل کرنے کے لیے نیپال سے بات کرے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب 2015 میں نیپال نے اپنا نیا آئین منظور کیا اور اس کے خلاف بھارتی نژاد مدھیشوں نے مظاہرے شروع کرکے بھارت سے نیپال جانے والی سڑک بلاک کر دی۔ اس سڑک کی بندش کے باعث نیپال کوکئی مہینوں تک اقتصادی پریشانیوں کا سامنا رہا۔ کٹھمنڈو نے اس صورت حال کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
پچھلے دنوں جب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ہندوؤں کے لیے انتہائی مقدس چین میں واقع کیلاش مانسرور پہاڑ تک جانے کے لیے ریاست اتراکھنڈ میں ایک سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال کی ناراضگی مزید بڑھ گئی۔ نیپال کا موقف ہے کہ کالاپانی، لیپو لیکھ اور لمپیا دھورا کے جس راستے سے یہ سڑک گزرتی ہے وہ علاقے نیپال کے ہیں۔ نیپال کی حکومت نے پارلیمنٹ میں آناً فاناً ملک کا نیا نقشہ پیش کردیا جس میں ان علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ نیپال میں قوم پرستی کی فضا میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مکمل حمایت کی اور نیپالی صدر کے دستخط کے بعد اب یہ نقشہ باضابطہ طور پر منظور کیا جا چکا ہے۔
بھارت نے نیپال کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ نقشہ تاریخی حقائق اور شواہد کے برعکس ہے۔ اس پس منظر میں اب بہار کے بعض علاقوں پر نیپال کا دعویٰ کشیدگی میں اضافہ کرسکتا ہے۔
اس دوران نیپالی پارلیمان نے شہریت قانون میں ترمیم کو بھی منظوری دے دی۔ نئی ترمیم کے بعد نیپالی مردوں سے شادی کرنے والی ’غیر نیپالی‘ خواتین کو سات برس تک شہریت نہیں ملے گی۔اب تک کے قانون کے مطابق شادی کے فوراً بعد ہی انہیں نیپال کی شہریت حاصل ہوجاتی تھی۔ نئے قانون کے سے ان کے لیے کئی سماجی اور اقتصادی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ترمیم شدہ شہریت قانون کی رو سے اب نیپال کی شہریت حاصل کرنے والے غیر نیپالی افراد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز نہیں ہو سکیں گے۔ ان میں صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلی،اسپیکر، مسلح افواج کے سربراہ اور انٹلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کے عہدے شامل ہیں۔
سفارتی امور کے ماہر سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر نیپال اب اپنی ایک الگ شناخت پر زور دینے کی کوشش کررہا ہے اور بھارت کو پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھارت کو ایسا کوئی خصوصی اختیار نہیں دے گا جو نیپالی شہریوں کو بھارت میں حاصل نہیں۔
نیپال میں بھارت کے سابق سفیر رنجیت رائے کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون بھارت اور نیپال کے درمیان بیٹی اورروٹی کے رشتے میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔
ہندومذہبی اساطیر کے مطابق بھگوان رام کی بیوی سیتا کا تعلق جنک پور سے تھا جو کہ موجودہ نیپال میں ہے۔ اور بھار ت کے متعدد ریاستوں کی خواتین کی نیپالی مردوں سے شادی عام بات ہے۔ دوسری طرف لاکھوں کی تعداد میں نیپالی شہری بھارت میں کسی دستاویز کے بغیر ملازمت کرتے ہیں اور بھارتی فوج میں باضابطہ ایک گورکھابٹالین بھی ہے۔ اس لیے بھارت کے سیاسی رہنما دونوں ملکوں کے تعلقات کو اجاگر کرنے کے لیے ’بیٹی روٹی کا رشتہ‘ کی اصطلاح کا سہارا لیتے ہیں۔ وزیردفاع راجناتھ سنگھ نے بھی حالیہ سرحدی تنازعہ پربیٹی اور روٹی کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
رنجیت رائے کا مشورہ ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں کو خوابوں کی دنیا سے نکل کر تعلقات میں خلیج دور کرنے کی کوشش کرنی چاہییے۔