1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال میں کم سنی میں لڑکیوں کی شادی کا فرسودہ رواج

کشور مصطفیٰ4 فروری 2015

اچھوت سمجھے جانے والی ذات ’دلت‘ گھرانوں میں ہر چار میں سے تین لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EVQQ
تصویر: picture-alliance/dpa

ہمالیہ کی ریاست نیپال میں کم سنی یا بچپن کی شادی پر 1963 ء میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے مطابق اس ملک میں ہر دس میں سے چار بچیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے۔

معاشرے کے غریب اور نچلے طبقوں میں لڑکیوں کی ٹین ایج میں شادی کی شرح اور بھی زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر اچھوت سمجھے جانے والی ذات ’دلت‘ گھرانوں میں ہر چار میں سے تین لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار 2012 ء میں’ پلین انٹرنیشنل، سیو دا چلڈرن اور ورلڈ وژن کی طرف سے کروائے جانے والے ایک سروے کے نتائج کے ذریعے سامنے آئے ہیں۔

BDT Indische Mädchen heiraten symbolisch die Fruchtbarkeit
کم سن لڑکیوں کی شادی کا رواج بھارت میں بھی پایا جاتا ہےتصویر: AP

ایک بہتر زندگی کی تلاش

تین سال پہلے کی بات ہے کہ 13 سالہ سُسمیتا کامی ایک برفانی رات میں اپنے شوہر کے گھر سے فرار ہوکر نیپال کے شمال مغربی علاقے میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کم سن لڑکی نے راستے میں کسی قسم کے خوف کے آگے ہتھیار نہ ڈالے اور بغیر کہیں رکے سیدھے اپنے والدین کے گھر پہنچ گئی۔ سُسمیتا کامی کے سُسرال والوں نے اُس کے والدین سے مطالبہ کیا کہ وہ سُسمیتا کو اُن کے حوالے کر دیں لیکن اُس کے والدین نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ سُسمیتا اب 16 برس کی ہو چُکی ہے اُس نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، " میں نے اُنہیں کہہ دیا کہ میں ہرگز شادی نہیں کروں گی اور میں واپس بھی نہیں جاؤں گی۔ میں وہاں سے بھاگ آئی کیونکہ میں اسکول جانا چاہتی ہوں" ۔

دلت لڑکیوں کے نصیب

بھارت کی طرح ہمالیہ کی ریاست نیپال میں بھی دلت برادری کو معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ اسے نچلی ذات تصور کرتے ہوئے اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اس قدیم روایت کی چکی میں سب سے زیادہ لڑکیاں پستی ہیں جنہیں کم سنی میں جبری طور پر کسی مرد کے ساتھ شادی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

Jemen Mädchen
قدامت پرست چند عرب معاشروں کے ایک خاص طبقے میں بھی بہت کم عمر میں لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سُسمیتا کامی کو اُس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ گھر سے لکڑیاں اکھٹا کرنے نکلی تھی۔ چار روز بعد زبردستی اُس کی شادی کر دی گئی۔ سُسمیتا کی ماں جیڈین کامی بھی اپنی ٹین ایجر میں اسی زیادتی کا شکار ہو چُکی تھی۔ اُس نے بھی یہ آزمائش جھیلی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے، " یہ ہماری ثقافت ہے۔ لوگوں کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اُن کی بیٹیاں بھاگ نہ جائیں یا کسی دوسری برادری میں شادی نہ کر لیں" ۔ سُسمیتا کی ماں کامی نے ابتدائی طور پر اپنی بیٹی کی جبری شادی کی مخالفت بھی نہیں کی تھی۔

نیپال کی یہ فرسودہ رسم دس سالہ خانہ جنگی کے دور تک میں برقرار رہی۔ اُس دور کے خاتمے کے ساتھ ہی نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور ہمالیہ کی یہ ریاست ایک جمہوری سیاسی عمل سے گزری۔