1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ڈی ایم کے اختلافات مزید بڑھ سکتے ہیں

عبدالستار، اسلام آباد
17 مارچ 2021

پی ڈی ایم کی صفوں میں اختلافات کئی حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ان اختلافات میں آنے والے مہینوں میں مزید شدت آئے گی، جس سے پی ٹی آئی حکومت کو فائدہ ہو گا اور عمران خان کے لیے کچھ مہینے پرسکون رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/3qkfT
Wahlen in Pakistan I  Bilawal Bhutto Zardari
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

واضح رہے کہ کل پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حالیہ مہینوں میں مختصر ترین پریس کانفرنس کی اور اس میں یہ بتایا کہ لانگ مارچ کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ کئی ناقدین کے خیال میں اس پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن بہت غصے میں تھے اور ایسا لگتا تھا کہ وہ پی پی پی سے انتہائی ناخوش ہیں۔ ملک کے کئی حلقوں میں یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ کل کے اجلاس کے دوران مریم نواز اور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے درمیان بھی تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ گو کہ مریم نواز نے کہا ہے کہ پی پی پی کے جواب سے پہلے قیاس آرائی نہیں کرنی چاہیے لیکن ملک میں اب بھی پی ڈی ایم کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم اب اپنے اختتام پر ہے۔

Pakistan | pakistanische Politiker, die sich unter dem Bündnis von PDM in Lahore treffen
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

پی پی پی اور ن لیگ کی دھوکہ دہی

سیاسی اتحاد کے کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اتحاد ن لیگ اور پی پی پی کی دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ماضی میں مولانا فضل الرحمن کے قریب رہنے والے حافظ حسین احمد  نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہ پی پی پی اور ن لیگ نے مولانا فضل الرحمن کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، ''نون لیگ اور پی پی پی چاہتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اپنے کارکنان کی قربانی دیں اور ان کو لے کر آئیں۔ جب کہ یہ دونوں جماعتیں صرف پیسہ لگائیں۔ نواز شریف نے جے یو آئی ایف کے لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت سے ڈیل کی اور باہر چلے گئے۔ پیپلزپارٹی سندھ حکومت کو بچانا چاہتی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان سارے عوامل کی وجہ سے سیاسی اتحاد انتشار کا شکار ہے،'' اب میرے خیال میں وہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلا سکیں گے کیونکہ شعبان قریب آرہا ہے اور اس کے بعد رمضان ہوگا اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوتی۔ پی ڈی ایم کی ناکامی کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن پر ان کی اپنی جماعت میں بھی تنقید ہو رہی ہے۔‘‘

اختلافات کی وجوہات

ملک کے کئی حلقے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں آخر اختلافات کن وجوہات کی بنیاد پر ہیں۔ معروف سیاسی تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ان اختلافات کا تعلق حکمت عملی سے ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''مولانا فضل الرحمان اور نون لیگ سخت گیر لائن لینا چاہتے ہیں اور ناقدین کے خیال میں ان کا طرز عمل غیر حقیقت پسندانہ ہے جبکہ پی پی پی کا طرز عمل حقیقت پسندانہ ہے اور وہ جارحانہ طرز عمل اختیار کرنا نہیں چاہتی۔‘‘

تین جماعتوں کا رویہ

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اتحاد کی تین بڑی جماعتوں کے رویے کی وجہ سے پی ڈی ایم انتشار کا شکار ہوا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں کو نون لیگ سے دوستی اچھی نہیں لگتی،''پی پی پی پنجاب کا خیال ہے کہ پارٹی سے بہت سارے لوگوں نے راہیں اس لیے جدا کیں کیونکہ زرداری صاحب نے نواز شریف سے دوستی کی اور اس دوستی کی وجہ سے پارٹی کے بہت سارے رہنما عمران خان کے ساتھ چلے گئے۔ پی پی کے رہنماؤں نے یہ پیغام بلاول بھٹو زرداری کو بھی دیا ہے۔ پنجاب میں پی پی پی مسلم لیگ ن کی حریف ہے اور پی پی پی رہنما چاپتے ہیں کہ پارٹی نون لیگ سے فاصلے پر رہے۔ جب کہ مولانا فضل الرحمان پی پی کو یہ کہہ چکے ہیں کہ لاڑکانہ میں ہماری دوسری پوزیشن تھی اور اگر پی پی ہمارے ساتھ نہیں چلتی تو پھر ہم بھرپور مہم چلائیں گے۔‘‘

Wahlen in Pakistan I  Bilawal Bhutto Zardari
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم والوں کو لگتا ہے کہ پی پی پی پہلے فیصلے کر لیتی ہے اور وہ فیصلے سیاسی اتحاد پر مسلط کردیتی ہے اور خود مولانا فضل الرحمان کو بھی ایسا ہی لگتا ہے۔

فارورڈ بلاک کا خطرہ

پنجاب میں پی پی پی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کےکہ پی پی پی کو خطرہ ہے کہ اگر اس نے اسمبلیوں سے استعفے دیے تو نہ صرف پیپلزپارٹی میں بلکہ نون لیگ میں بھی فارورڈ بلاک بن جائیں گے،'' ان کے خیال میں ان استعفوں کی وجہ سے جس طرح 1985ء میں پارٹی کو نقصان ہوا تھا بالکل اسی طرح اب نہ صرف پارٹی کو نقصان ہوگا بلکہ پورے جمہوری نظام کو نقصان ہوگا اس لیے وہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کے خلاف ہیں۔‘‘

پی پی پی نے وقت مانگا ہے

نیشنل پارٹی کے سینیئر نائب صدر اور پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما میر کبیر شہی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پی ڈی ایم کی شیرازہ بندی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی وہ ٹوٹی ہے۔ اتحاد ابھی بھی قائم ہے ہم نے لانگ مارچ کو ملتوی کیا ہے منسوخ نہیں کیا ہے۔ قومی اسمبلی سے استعفوں کے مسئلے پر بھی پی پی پی نے ہم سے مہلت مانگی ہے اور ہم نے وہ مہلت دے دی ہے تاکہ وہ اپنی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی سے مشورہ کر سکیں۔‘‘

تاہم سیاسی اتحاد کے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کی راہیں جدا ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم پی پی پی کے بغیر قائم اور دائم ہے،''صرف پیپلزپارٹی استعفی دینا نہیں چاہتی لیکن سیاسی اتحاد کی بقیہ تمام جماعتیں استعفے دینے کے لیے بھی تیار ہیں اور سڑکوں پر آنے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘

اس صورتحال پر پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواز شریف اور زرداری کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے اور اب پی ڈی ایم وفات پا چکی ہے۔ عمران خان کے لیے اب اگلا وقت سکون کا ہوگا اور ملک ترقی کرے گا۔‘‘

’پی ڈی ایم کا بیانیہ پاکستان میں آئین کی حکمرانی ہے‘