1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لداخ: وادی گلوان کے ایک برس بعد حالات کیسے ہیں؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
15 جون 2021

گزشتہ برس پندرہ جون کو گلوان میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں، جس کے بعد چین نے خطے میں اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/3uwdv
Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

گزشتہ برس 15 جون کی درمیانی شب مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں بھارت کے کم سے کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کو آج ایک برس مکمل ہو گیا ہے اور اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد سے سرحد پر حالات کیسے ہیں اور دونوں ملکوں کے تعلقات کس موڑ پر کھڑے ہیں؟

'حالات خراب ہو رہے ہیں‘

چینی امور کی ماہر اور چین بھارت تعلقات پر ایک کتاب کی مصنفہ غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ حالات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں غزالہ نے کہا کہ ویسے تو یہ تنازعہ کافی پرانا ہے تاہم اس کی تازہ شروعات پانچ اگست 2019 ء کو اس وقت ہوئی تھی جب بھارت نے کشمیر سے متعلق متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے ریاست کا خصوصی درجہ ختم کر دیا تھا اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

ان کا کہنا ہے چونکہ لداخ بھی کشمیر کا ہی حصہ ہے اس لیے چین نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اس بھارتی فیصلے کو پوری طرح مستر کر دیا تھا،"چین کا موقف ہے کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کی سرحدوں کا فیصلہ تنہا بھارت کیسے کر سکتا ہے۔"

دریائے سندھ جہاں سے شروع ہوتا ہے

'ڈریگن ایٹ اور ڈور اسٹیپس' کی مصنفہ غزالہ وہاب مزید کہتی ہیں، ’’چین ہماری سر زمین کے کافی اندر تک آ گیا ہے اور اب واپس بھی نہیں جانا چاہتا۔ ہم نے بھی اب اسے خاموشی سے تسلیم  کر لیا ہے۔ تاہم کچھ اہم مقامات کے حوالے سے بات نہیں بن پا رہی ہے۔ پیونگ یانگ سے دونوں پیچھے ہٹے ہیں کیونکہ اس علاقے کی اتنی اہمیت نہیں ہے اور ویسے بھی دو تہائی جھیل تو چین کے پاس ہے۔"  

بے نتیجہ بات چیت

بھارت اور چین کے فوجی حکام کے درمیان گزشتہ ایک برس کے دوران بات چیت کے  تقریباً دس ادوار ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچؤل کنٹرول (ایل اے سی) کے  کئی علاقوں میں دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے مورچہ بند ہیں۔ بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک برس کے بعد صورت حال میں بہتری  آنے بجائے مزید ٹکراؤ کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ روز چین نے کشیدگی میں کمی کے لیے میجر جنرل کی سطح پر بات چیت کی نئی تجویز پیش کی ہے اور اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت اس تجویز پر غور بھی کر رہی ہے۔ فریقین کے درمیان آخری بات چيت اپریل میں ہوئی تھی تاہم اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔

مقناطیسی پہاڑ، جن کے اوپر سے پائلٹ بھی پرواز سے بچتے ہیں

چینی اثر و رسوخ میں اضافہ

بھارت میں فوجی ماہرین کے مطابق گزشتہ برس مئی میں فریقین میں زبردست کشیدگی کے ماحول میں چینی فوج نے، دریائے گلوان کی وادی، میدانی علاقے ڈیپسنگ،  پیونگانگ سو جھیل، ہاٹ اسپرنگ اور گوگرا جیسے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اپریل 2020ء تک یہ تمام علاقے بھارت کے قبضے میں تھے اور اس وقت ان پر چین کا کنٹرول ہے۔

 سفارتی اور فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد کشیدگی میں کچھ کمی آئی جس کے بعد اس برس فروری میں فریقین نے پیونگانگ سو جھیل سے پیچھے ہٹنے پر اتفاق کیا تھا اور اس پر عمل ہوا تاہم باقی دیگر علاقوں میں اب بھی حالات جوں کے توں برقرار ہیں۔

غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ ایل سی پر چین کی پوزیشن بہت مستحکم ہے اور بھارت ٹیکنالوجی اور مالی وسائل کی سطح پر چین کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا،"مجبوری بھارت کی ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ صورت حال تقریباً اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور تقریباً ہر مقام پر توازن تیزی سے بدل رہا ہے۔"

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

غزالہ وہاب کے بقول، بھارت کے پڑوسی ملکوں میں بھی چین کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت، "اپنے ہمسایہ ملکوں پر بھی زیادہ انحصار نہیں کر سکتا۔ اسی لیے کواڈ جیسے گروپ میں اس کی شمولیت ایک مجبوری ہے۔ آخر کہیں سے تو طاقت حاصل کرنی ہے۔"

بھارت چین سرحدی اختلافات

بھارت اور چین میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوؤل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان طویل سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ ایک برس سے بھی زیادہ وقت سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول ہے۔

بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اس کو بحال کیا جائے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی فوجوں کو پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔

بھارتی بری فوج کے سربرا ہ جنرل ایم ایم نروانے حالیہ مہینوں میں اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ایل اے سی پر دونوں ملک کشیدگی کو کم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن دفاعی ماہرین کے مطابق اس کے باوجود بھارت کے تقریبا ساٹھ ہزار فوجی وہاں تعینات ہیں۔ اتنی ہی تعداد چینی فوجیوں کی بھی بتائی جاتی ہے تاہم ماہرین کے مطابق چینی فوج کی تعداد وہاں زیادہ ہے۔

بھارت میں اس پر کافی تشویش پائی جاتی ہے تاہم حکومت کا رویہ محتاط ہے اور ابھی تک سفارتی یا پھر فوجی سطح پر اس کے خلاف کوئی بیان بازی سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔

بدھ اور مسلم تہذيبوں سے آرستہ لداخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں