وزیراعظم کے جرنیلوں کی ملازمت میں توسیع کے اختیار پر سوال
14 مارچ 2023پاکستانی وزیراعظم کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ آرمی، نیوی، ائیر فورس اور چیرمین جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف کمیٹی کی ملازمتوں میں توسیع دیتے ہیں یا ان کی دوبارہ تقرریان کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تینوں بل پیر کو جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے جمع کرائے گئے ہیں۔
رانا ثناء اللہ کا بیان، کیا فیض حمید ٹارگٹ ہیں؟
جنرل کی گرفتاری: کیا پی ٹی آئی کے خلاف سختی بڑھ رہی ہے؟
ان بلوں میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ آرمی چیف، نیوی چیف، ائیر فورس چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمتوں میں توسیع کرے یا ان کی دوبارہ سے تقریری کرے۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت وزیراعظم کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ مذکورہ بالا افسران کی ملازمتوں میں توسیع کریں یا ان کی دوبارہ تقریری کریں۔
فوجی قوانین سے واقفیت رکھنے والے معروف قانون دان کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے یہ تینوں بلز انتہائی مثبت ہیں اور اس سے کرپشن کا راستہ رکے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آرمی ایکٹ کے اصل قوانین میں ملازمت میں توسیع یا دوبارہ سے تقرری کا کوئی قانون موجود نہیں تھا۔ حکومت نے ریگولیشنز کے ذریعے ماضی میں توسیع کرنے کی کوشش کی، تو سپریم کورٹ نے یہ سوال کیا کہ ریگولیشنز کسی شق کی تحت ہوتے ہیں۔ تو پھر دو ہزار بیس میںپارلیمنٹ نے اس میں ترمیمکی تھی۔‘‘
کرنل انعام رحیم کے مطابق، '' مشتاق احمد نے یہ تین بل جمع کرا کر اختیار کو ختم کرنے کی بات کی ہے، جو بہت اچھا کام ہے۔ کیوں کہ سیاستدانوں آرمی چیف کو توسیع دینے کے بعد ان سے اپنے کرپشن کے مقدمات ختم کراتے ہیں اور اس سے میرٹ کا قتل ہوتا ہے۔‘‘
انعام رحیم کا کہنا تھا کہ اس طرح کی توسیع صرف حالت جنگ میں دی جا سکتی ہے۔ ''دنیا کی کسی جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا کہ فوجی افسران کو ملازمت میں توسیع دی جائے یا ان کی دوبارہ سے تقرری کی جائے۔‘‘
نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں نہ صرف فوجی افسران کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے بلکہ کسی بھی سرکاری ملازم اور افسرکی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' جب سیاستدان اس طرح کی توثیق کرتے ہیں، تو وہ فوجی افسران ان کی احسان تلے دب جاتے ہیں، جس سے کرپشن کے راستے کھلتے ہیں۔ لہذا یہ سلسلہ بالکل بند ہونا چاہیے۔ لیکن پیپلز پارٹی اور نون لیگ طاقتور حلقوں کو خوش کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور ان کے مفادات ان سے وابستہ ہیں۔ تو وہ کسی صورت میں اس بل کی حمایت نہیں کریں گے جبکہ جماعت اسلامی کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی اکثریت حاصل نہیں ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے مسلم لیگ ن نواز کے کئی رہنماؤں سے رابطے کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کہا کہ وہ مختلف جلسوں اور پارٹی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ لہذا اس معاملے پر کمنٹ نہیں کرسکتے۔
ڈی ڈبلیو نے سینیٹر مشتاق احمد اور جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا چترالی سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نہ ہی فون اٹھایا اور نہ پیغامات کا جواب دیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کیونکہ انہون نے ان مجوزہ بلوں کو نہیں پڑھا اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے۔