وکی لیکس انکشافات: امریکی رد عمل
24 اکتوبر 2010امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ ان دستاویزات میں عراق میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے متعلق، جو انکشافات کئے گئے ہیں اُن پر امریکہ تحقیقات کرانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
وکی لیکس کے مطابق امریکی فوجیوں کو معلوم تھا کہ عراقی حکام کے ہاتھوں عراقی شہریوں کو ہر طرح کی اذیت اورتشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا تاہم انہوں نے سالوں پر محیط تشدد کی ان کارروائیوں کو نظرانداز کیا۔ اگرچہ امریکی میڈیا نے وکی لیکس کے انکشافات کے بارے میں بہت تفصیلی رپورٹنگ کی تاہم سیاسی حلقوں کی طرف سے ان دستاویزات کی اشاعت پر غیر معمولی خاموشی اور سرد مہری دیکھنے میں آ رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امریکی سیاستدانوں کے لئے اس وقت سب سے زیادہ اہمیت کا حامل موضوع ایک ہفتے بعد وہاں ہونے والے کانگریس کے انتخابات ہیں۔ ایسے نازک وقت میں امریکی سیاستدان عراق میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے ناخوشگوار موضوع پر قطعاً توجہ نہیں دینا چاہتے۔
ویسے بھی اس بار کی انتخابی مہم میں امریکی جنگوں کا موضوع کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ واشنگٹن کی سیاسی شخصیات کی جانب سے تو وکی لیکس کے انکشافات پر خاموشی اختیار کی گئی ہے تاہم پینٹا گون کے ترجمان Geoff Morrell نے بیان دیا ہے، کیونکہ وہ اس معاملے میں خاموشی اختیار نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے وکی لیکس کی چار لاکھ خفیہ دستاویزات کی تفصیلات پر تو تبصرہ نہیں کیا تاہم اُن کا کہنا تھا ’ ان میں فیلڈ کے اندر کے کچھ مناظر ہیں جو نہایت مختصر ہیں، یہ اُن حالات کی تفصیلات بیان نہیں کرتے۔ ان چھوٹے چھوٹے کلپس سے گزشتہ 9 برسوں کے اندر عراق میں ہونے والے واقعات کے بارے میں کوئی نئی معلومات حاصل نہیں کر سکتے‘۔
وکی لیکس کی شائع کردہ دستاویزات میں عراق جنگ کے دوران تشدد کا نشانہ بننے والے عراقی شہریوں، خاص طور سے دوران جنگ ہلاک ہونے والے عراقی شہریوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے، جو پینٹا گون اب تک بتاتا رہا ہے۔ دستاویزات کے مطابق عراق کی جنگ کے چھ سالوں کے دوران ایک لاکھ نو ہزار عراقی ہلاک ہوئے جن میں تقریباً دو تہائی شہری شامل تھے۔
امریکہ میں اس وقت زیر بحث یہ امر ہے کہ وکی لیکس کے انکشافات سے عراق میں امریکہ کےامیج کو کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان Geoff Morrell کا اس بارے میں کہنا ہے ’ عراق ایک آزاد ریاست ہے، جس کی اپنی فوج اورقوانین موجود ہیں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اُن واقعات کے بارے میں عراق کے متعلقہ اداروں کو یہ معلومات فراہم کریں تاکہ وہ اس سلسلے میں مزید تحقیقات کریں۔‘
عراق میں شہریوں کے ساتھ ہونے والے تشدد اور اذیت رسانی محض عراق کا معاملہ ہے؟ یہ امر ناقابل فہم ہے۔ امریکی روز نامے نیو یارک ٹائمز کے مطابق آخر کار عراق میں سرگرم فوجی دستے ہی صدر اوباما کے عراق سے فوجی انخلا کے منصوبے کا بنیادی جُز ہیں۔
دریں اثناء نیو یارک میں اقوام متحدہ خود اس بحث میں شامل ہو گیا ہے۔ اس عالمی ادارے کے اذیت رسانی سے متعلق امور کے نگران مانفرڈ نوواک نے امریکی صدر باراک اوباما سے عراق میں شہریوں پر ہونے والے تشدد اور امریکی فوجیوں کے کردار کے بارے میں مکمل چھان بین کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عاطف توقیر