يمن ميں شہريوں کی ہلاکت، سعودی اتحاد تنقيد کی زد ميں
10 اکتوبر 2016امريکی صدر باراک اوباما کی انتظاميہ نے سعودی عرب کو گزشتہ برس 1.3 بلين ڈالر کا اسلحہ فروخت کيا تھا۔ سرکاری دستاويزات اور چند موجودہ اور سابقہ اہلکاروں کے بيانات کے مطابق اس وقت چند اہلکاروں نے واشنگٹن کو خبردار کيا تھا کہ يمن کے خلاف سعودی قيادت ميں جاری مسلح کارروائيوں کی حمايت کرتے ہوئے امريکا بھی جنگی جرائم کا مرتکب ہو سکتا ہے تاہم اوباما انتظاميہ نے اس تنبيہ کے باوجود رياض کو ہتھيار فروخت کيے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے پاس موجود ای ميلز اور ديگر ريکارڈز کے مطابق امريکی محکمہ خارجہ کے چند اہلکار اس حوالے سے بھی شکوک و شبہات کا شکار تھے کہ سعودی فوج حوثی باغيوں کے خلاف کارروائيوں کے دوران شہريوں اور يمن کے بنيادی ڈھانچے کی حفاظت کس طرح کر پائے گی۔ نيوز ايجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس بارے ميں ہونے والے بحث و مباحثے ميں امريکی حکومت کے نمائندگی کرنے والے وکلاء، اس بارے ميں کوئی حتمی فيصلہ نہيں کر پائے تھے کہ آيا بين الاقوامی قوانين کی تحت سعودی آپريشن کی حمايت کی صورت ميں امريکا کو بھی جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرايا جائے گا يا نہيں۔
مئی سن 2015 سے فروری سن 2016 کے درميان کی يہ دستاويزات خبر رساں ادارے روئٹرز نے ’فريڈم آف انفارميشن‘ کے تحت حاصل کيے۔ اس دوران محکمہ خارجہ کے اہلکاروں نے رياض حکومت کو اسلحے کی فروخت کے حوالے سے تمام تر تفصيلات کا جائزہ ليتے ہوئے اس کی منظوری دے دی تھی۔
ہفتہ آٹھ اکتوبر کو يمن ميں ايک جنازعے کے اجتماع پر کيے جانے والے ايک فضائی حملے ميں 140 افراد ہلاکت ہو گئے تھے۔ اگرچہ رياض حکومت نے خود کو اس کارروائی کی ذمہ داری سے بری قرار ديا ہے تاہم اتنی بڑی تعداد ميں شہريوں کی ہلاکت کے نتيجے ميں واشنگٹن کی جانب سے بھی کڑی مذمت سامنے آئی ہے۔ امريکی انتظاميہ نے يہ اعلان تک کر ديا ہے کہ ’سعودی قيادت ميں جاری مہم کی حمايت کا از سر نو جائزہ ليا جائے گا تاکہ اس بات کو يقينی بنايا جا سکے کہ کہيں امريکی مفادات، تقاضوں اور اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔‘
يہ امر اہم ہے کہ متعلقہ دستاويزات ميں ايسی تفصيلات بھی سامنی آئی ہيں، جن کے تحت يہ واضح ہے کہ امريکا نے سعودی عرب پر اس سلسلے ميں کافی دباؤ ڈالا تھا کہ سويلينز کی ہلاکتيں کم سے کم ہوں۔ حتیٰ کہ امريکا نے ايسی تنصيبات اور مقامات کی تفصيلی فہرستيں بھی فراہم کی تھيں کہ کن مقامات پر بمباری نہيں کرنی چاہيے۔
يمن کے حوثی باغيوں کی جانب سے صدر منصور حادی کا تختہ پلٹنے کے بعد سعودی عرب نے گزشتہ برس مارچ ميں وہاں عسکری مداخلت کی تھی۔ رياض کا دعویٰ ہے کہ حوثی باغيوں کو اس کے روايتی حريف ايران کی پشت پناہی حاصل ہے۔