1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹاکسک لوگ کیسے دوسروں کا جینا حرام کرتے ہیں؟

29 نومبر 2024

ہم سب کی زندگی میں منفی رویے کا حامل کم از کم ایک شخص ضرور ہوتا ہے۔ اس سے محض بات کرنے کا سوچ کر ہی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ ٹاکسک یعنی زہریلے انسان سے بات کرنا جتنا مشکل ہوتا ہے اس کے ساتھ رہنا اس بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4nYdL
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

ٹاکسک یعنی زہریلے لوگ اپنے منفی رویوں اور عادات سے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو آسان بنانے کی بجائے پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ ان کی نگاہیں ہمیشہ دوسروں کی کمزوریوں پر رہتی ہیں اور وہ بلا وجہ تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو مسلسل احساسِ جرم کی کیفیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ مسائل کے حل کی بجائے، وہ انہیں مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ اگر کبھی حل کی طرف رجوع بھی کریں تو صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں، خواہ اس سے دوسروں کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ پہنچ رہا ہو۔

انٹرنیٹ ایسے انسانوں کی خصوصیات پر مبنی مواد سے بھرا پڑا ہے۔ پھر بھی ہم زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ان کے زہریلے رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی ایک خاص خصوصیت ہے، وہ شروعات میں کافی اچھے ہوتے ہیں۔ وہ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، اچھا سلوک کرتے ہیں، ہر طرح کی مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہم ان کی اچھائی دیکھ کر ان پر اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ تاہم، جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، ان کی اصل شخصیت کے پہلو سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں، یا شاید ہماری آنکھیں ان کے حقیقی کردار کو پہچاننے لگتی ہیں۔ پھر ہمیں ان کے زہریلے پن کا احساس ہوتا ہے۔ 

یہ انسان کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ خونی رشتے دار، میاں، بیوی، باس، کام کے ساتھی، دوست، استاد، سپروائزر، محلہ دار اور وغیرہ وغیرہ۔ ان کے ساتھ رشتے کی گہرائی جتنی زیادہ ہو گی، ان کی زہریلی باتوں اور حرکتوں کا زخم اتنا ہی گہرا ہوتا ہے۔ یہی گہرائی ہمیں ان کے مضر کردار کو پہچاننے نہیں دیتی۔ ہم ان کے ساتھ رشتے کو برقرار رکھنے کی خواہش میں ان کی ہر نامناسب حرکت کو درست سمجھتے ہیں اور انہیں ہمارے ساتھ مزید برا کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو پر بار غلط کرنے کا الزام دیتے ہوئے مزید محنت کرنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً، ہم جسمانی، مالی اور جذباتی نقصانات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ایسے لوگوں کی شناخت مشکل نہیں، بشرطیکہ ہم حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ان کی چند نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ وہ دوسروں کو مسلسل احساسِ جرم میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہیں۔ ان کا مزاج انتہائی متغیر ہوتا ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ ان کے اردگرد لوگ ان کے مزاج کو سمجھنے میں ہی اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔ ان کی فطرت میں خیرخواہی کا فقدان ہوتا ہے، اور وہ صرف دوسروں کی کمزوریوں کو سب کے سامنے عیاں کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اکثر ڈراموں میں ہیروز ٹاکسک ہوتے ہیں، انمول بلوچ

نفسیات دانوں کے مطابق ضرر رساں لوگ اندرونی عدم اطمینان کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے دوسروں پر دباؤ ڈالتے ہیں تاکہ ان کی نگاہیں ان کی خامیوں تک نہ پہنچیں۔ وہ اپنے نامناسب رویے کے منفی اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان سے معافی کی توقع رکھنا یاان کے رویے میں تبدیلی کا انتظار کرنا اپنا وقت اور توانائی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

ان کا غیر صحت مند رویہ ان کے بچپن کے تجربات کا اثر ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے ماحول میں یہی رویہ دیکھا ہوتا ہےاور وہ اسے ہی نارمل سمجھ کر اپنا لیتے ہیں۔ ان کا ماحول ایسا ہوتا ہے تو انہیں وہاں سے اپنے رویے کو کسی تیسرے کی نظر سے دیکھنے کا خیال بھی نہیں آتا اور اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا بھی نہیں سوچتے۔ ہم انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں بھی ہم ہرٹ ہوتے ہیں۔  

یاد رکھیں ایسے لوگ جب تک خود تبدیل نہ ہونا چاہیں، انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ انہیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لیے کسی نفسیات دان کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ان میں آنے والی تبدیلی چند گھنٹوں سے زیادہ کی نہیں ہو گی۔ 

ضرر رساں افراد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ واضح حدود قائم کریں۔ اپنی توجہ ان کی تبدیلی کی بجائے اپنی فلاح و بہبود پر مرکوز کریں۔ یاد رکھیں کہ ان کے مضر رویے کو برداشت کرنا یا انہیں تبدیل کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ وہ اپنے برتاؤ کے خود جوابدہ ہیں اور انہیں جتنی زیادہ رعایت ملے گی، وہ اتنا ہی زیادہ آپ کو پریشان کریں گے۔

آپ اپنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کو اولین ترجیح دیں۔ ان کے ساتھ واضح اور مضبوط حدود متعین کریں۔ یہ حدود نہ صرف آپ کی حفاظت کریں گی بلکہ ان کے لیے بھی ایک واضح پیغام ہوں گی کہ ان کا نامناسب رویہ قابل قبول نہیں ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔