سفری پاپندیاں کیا مذہبی بنیادوں پر عائد کیں؟ عدالت کا سوال
8 فروری 2017خبر رساں ادارے اے پی نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ منگل کے دن سان فرانسیسکو کی نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز میں تین رکنی بینچ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر پابندی کی بحالی کی درخواست پر سماعت کی۔
یہ سماعت ٹیلی فون لائنز پر ہوئی اور اسے کیبل نیٹ ورکس، اخباروں کی ویب سائٹس اور سماجی رابطوں کی متعدد پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اس سماعت کو اپیل کورٹ کے یو ٹیوب چینل پر بھی نشر کیا گیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس سماعت کو دیکھا یا اس کی آڈیو اسٹریم سنی۔ اس سماعت میں اطراف نے اپنا اپنا مؤقف بیان کیا۔
کون امریکا آ سکتا ہے، کون نہیں؟ بحث آج عدالت میں
پابندیاں ختم، امریکی ہوائی اڈوں پر مسافروں کے آنسو
دو دنوں میں ٹرمپ کے لیے دوسرا بڑا عدالتی دھچکا
اپیل کورٹ کے ترجمان ڈیوڈ میڈن نے بتایا ہے کہ متوقع طور پر رواں ہفتے کے اواخر تک عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔ اگر یہ اپیل کورٹ ماتحت عدالت کے فیصلے کو نہیں بدلتی تو یہ معاملہ سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔ اپیل کورٹ جائزہ لے رہی ہے کہ آیا صدر ٹرمپ کی طرف سے مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر پابندی کا ایگزیکٹیو آرڈر غیر آئینی یا نہیں۔
گزشتہ جمعے کے دن واشنگٹن ریاست کے شہر سیاٹل کے وفاقی جج جیمز رابرٹ نے اس پابندی کو عارضی طور پر ملک بھر سے ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔ تاہم ہفتے کے دن امریکی محکمہ انصاف کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل میں کہا گیا کہ یہ پابندی امریکا کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر عائد کی گئی ہے۔
وکلاء کی طرف سے دلائل دیے جانے پر اپیل کورٹ کے جج رچرڈ کلفٹن نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ اس پابندی سے مسلم دنیا کی صرف پندرہ فیصد آبادی متاثر ہو سکتی ہے، تو کیا اس طرح یہ مسلم ممالک کے خلاف امتیازی ہو سکتی ہیں؟ تاہم امریکی انتظامیہ کے وکلاء کے بقول امریکی کانگریس نے صدر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کنٹرول کریں کہ ملک میں کون آ سکتا ہے۔
واشنگٹن کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے کہا کہ اس سفری پابندی کی معطلی سے امریکی حکومت کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ سولیسٹر جنرل Noah Purcell نے عدالت کو بتایا کہ ان سفری پابندیوں سے ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں جبکہ اس کی تیاری میں مذہبی امتیاز کا تاثر ملتا ہے۔ انہوں نے جرح کرتے ہوئے مزید کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر روڈی جولیانی نے کہا تھا کہ ٹرمپ نے انہیں کہا تھا کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جانا چاہیے، جس سے مسلمانوں کی امریکا آمد پر قانونی پابندی عائد کی جا سکے۔
صدر ٹرمپ کے اپنا عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد ستائیس جنوری کو ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا تھا، جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ملک ایران، عراق، شام، لیبیا، سوڈان، صومالیہ اور یمن کے شہریوں کی امریکا آمد پر نوّے دن کی پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ مہاجرین کی امریکا آمد پر ایک سو بیس دن کی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے مہاجرین اور سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکا آمد پر پابندی کے فیصلے کے خلاف امریکا سمیت متعدد یورپی ممالک میں احتجاجی ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ روز فلوریڈا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گولف کلب کے باہر دو ہزار افراد نے اس صدارتی حکم کے خلاف احتجاج کیا۔