ٹرمپ نے ہانگ کانگ کی ’خصوصی حیثیت‘ ختم کردی
15 جولائی 2020امریکی صدر نے اس کے علاوہ ہانگ کانگ میں نئے سیکورٹی قانون نافذ کرنے والے چینی حکام پرپابندی عائد کرنے کے حوالے سے ایک قانون پر بھی دستخط کردیے ہیں۔
امریکی کانگریس ان قوانین کواس ماہ کے اوائل میں ہی منظوری دے چکی تھی۔ ایگزیکٹیو آرڈر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد جہاں ایک طرف ہانگ کانگ کو امریکا کی طرف سے حاصل تجارتی ترجیحات ختم ہوجائیں گی وہیں دوسری طرف ان چینی حکام، تاجروں اور بینکوں پر بھی پابندیاں عائد ہوجائیں گی جنہوں نے ہانگ کانگ کی خود مختاری کو محدود کرنے میں چین کی مدد کی تھی۔
وائٹ ہاوس کے روزگارڈن میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا اب ہانگ کانگ کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرے گا جیسا کہ وہ چین کے ساتھ کرتا ہے۔”کوئی خصوصی درجہ نہیں، کوئی اقتصادی رعایت نہیں اور حساس ٹیکنالوجی کا کوئی کاروبار نہیں۔"
صدر ٹرمپ نے مزید کہا”ان (ہانگ کانگ کے شہریوں) کی آزادی چھین لی گئی ہے، ان کے حقوق چھین لیے گئے ہیں۔ اور ان سب کی وجہ سے، میرے خیال میں، ہانگ کانگ زیادہ دنوں تک آزاد مارکیٹ میں مسابقت کرنے کا اہل نہیں رہ سکے گا۔ بہت سارے لوگ ہانگ کانگ چھوڑ کر جارہے ہیں۔"
ہانگ کانگ پالیسی ایکٹ 1992 کے تحت امریکا ہانگ کانگ کے ساتھ ایک نیم خود مختار ملک کے طورپر سلوک کرتا ہے۔ کیوں کہ اس کا اپنا قانونی اور اقتصادی نظام ہے جو کہ تجارت، صنعت اور دیگر شعبوں میں چین کے نظام سے مختلف ہے۔ تاہم نئے سیکورٹی قانون کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ ہانگ کانگ میں بھی وہی تمام قوانین نافذ ہوں گے جو کہ اس وقت چین میں نافذ ہیں۔
صدر ٹرمپ نے میڈیا کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی چینی صدر شی جن پنگ سے بات چیت کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے نئے اقدام سے ان امریکی کمپنیوں کو پریشانی ہوسکتی ہے جو ہانگ کانگ سے کام کرتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کی تعداد تقریباً 1300کے قریب ہے۔ ہانگ کانگ میں تیار مصنوعات پر امریکا میں کم ٹیکس لگتا تھا۔ اب یہ ختم ہوسکتا ہے جس سے امریکا اور ہانگ کانگ کے درمیان ہونے والے اربوں ڈالر کی تجارت متاثر ہوسکتی ہے۔
امریکی شہری فی الحال ویزا کے بغیر ہانگ کانگ کا سفر کرسکتے ہیں لیکن اب انہیں چین کے سخت ویزا ضابطوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
خیال رہے کہ چین نے جب سے نیا سیکورٹی قانون منظور کیا ہے اس کے بعد سے ہی مغرب کے کئی ممالک اس کے خلاف آواز اٹھاچکے ہیں تاہم چین پر اس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہانگ کانگ چین کا داخلی معاملہ ہے اور کسی کو بھی اس کے داخلی معاملے میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ج ا / ص ز (اے ایف پی، اے پی)