ٹھنڈک، زندگی بھی اور موت بھی
23 جولائی 2018گرمی کے دنوں میں ہم میں سے کئی افراد سوچے بغیر ہی ایئرکنڈیشنر چلا دیتے ہیں یا فریج سے کوئی ٹھنڈا شربت نکال کر پینے لگتے ہیں۔ مگر یہ آلات، جن تک اب بھی دنیا کے کروڑوں انسانوں کی رسائی نہیں، کبھی کبھی لوگوں کے لیے زندگی اور موت تک کا معاملہ ہوتے ہیں۔
یہ کیسی گرمی ہے؟ نہ دیکھی نہ سنی
زمینی درجہ حرارت بلند، کروڑوں انسان شدید گرمی سے متاثر
کولنگ بھوک اور افلاس کے خاتمے کی کنجی بھی ہے۔ مثال کے طور پر ریفریجریٹر کی سہولت کا مطلب ہے کہ آپ ادویات کو اسٹور کر سکتے ہیں اور خوراک کا ضیاع بچا سکتے ہیں۔ ٹھنڈا کرنے والے آلات صحت میں بہتری کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں۔ یوں سمجھیے کہ پائیدار ترقی میں ان کا ایک کردار ہے۔ مگر جوں جوں ان آلات کا استعمال بڑھ رہا ہے، ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی ضرر رساں گیسیں زمینی درجہ حرارت میں اضافے کا بنیادی سبب بھی ہیں۔ یعنی پیچیدہ دائرہ کچھ یوں ہے کہ یہ گرمی سے بچنے کے لیے یہ آلات ضروری ہیں اور آلات استعمال کرنے کا مطلب ہے مزید گرمی۔
تحقیقاتی جائزوں کے مطابق سن 2050 تک دنیا بھر میں ان کولنگ آلات کی تعداد میں اب کے مقابلے میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہو گا اور ان کی مجموعی تعداد قریب 14 ارب تک ہو گی۔ اگر اعداد و شمار یہی رہے، اور اس سیکٹر میں کوئی غیرمعمولی تبدیلی نہ کی گئی یعنی ضرر رساں گیسوں کا اخراج اسی طرح جاری رہا، تو عالمی درجہء حرارت میں اضافہ غیرمعمولی طور پر تیز ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ایسی صورت حال میں پیرس میں رواں صدی میں درجہء حرارت کو دو ڈگری اضافے تک محدود رکھنے کے حوالے سے طے کردہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اقتصادیات کے ادارے کے توانائی اور ماحولیات کے شعبے کے سربراہ مارک راڈکا کے مطابق، ’’اگر ماحولیات کوئی مسئلہ نہ ہوتا، تو ہم ضرور کہتے کہ کولنگ آلات تک انسانوں کی پہنچ صاف پانی کی رسائی جیسی اہم ہے۔‘‘
تاہم امید کی بات یہ ہے کہ اس شعبے میں تحقیق کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ نئے بنائے جانے والے آلات کی استعداد کو بڑھایا جا رہا ہے اور اگر ان کی استعداد کو دوگنا بھی کر دیا گیا، تو اس کے ماحولیات پر غیرمعمولی مثبت اثرات پڑیں گے۔
ارینے بانوز روئِس، ع ت، الف الف