1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’پاکستانی سیاستدانوں کے اصل اثاثے کہیں زیادہ‘‘

شکور رحیم، اسلام آباد26 دسمبر 2013

الیکشن کمیشن کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کیے جانے کے بعد کئی حلقوں کی جانب سے ان معلومات کے درست ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ah5c
تصویر: arifali/AFP/Getty Images

پاکستانی الیکشن کمیشن نے بدھ 25 دسمبر کو ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے مالی سال 2012ء اور 2013ء کے لیے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر جاری کی تھی۔

پاکستانی الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اثاثوں کی کل مالیت ایک ارب 82 کروڑ 40 لاکھ 44 ہزار 233 روپے ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی کل مالیت دو کروڑ 96 لاکھ 75 ہزار 291 روپے ظاہر کی گئی ہے۔

اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے کل اثاثوں کی قیمت 73 لاکھ 18 ہزار 380 روپے بتائی گئی ہے۔

عمران خان صاحب کا بنی گالا والا گھر ہی لے لیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ بیس پچیس کروڑ کا ہو، طارق بٹ
عمران خان صاحب کا بنی گالا والا گھر ہی لے لیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ بیس پچیس کروڑ کا ہو، طارق بٹتصویر: AP

پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ سے وابستہ سینیئر صحافی اور کالم نویس طارق بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عوامی نمائندوں کی جانب سے اپنے اثاثوں کی قیمت انتہائی کم ظاہر کرنے کا رجحان نیا نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر سال الیکشن کمیشن میں جمع کرائی جانے والی معلومات اور ارکان پارلیمنٹ کی اصل دولت میں فرق واضح ہے: ’’میرے خیال سے ان کی دولت اس سے پانچ چھ گنا زیادہ ہے اور جو انہوں نے ظاہر کی ہے وہ بہت ہی کم ہے۔ اگر آپ ان کے لائف اسٹائل کو دیکھیں اور ان کے مہینے کے اخراجات نکالیں، آمدنی اور اثاثے دیکھیں تو خود ہی فرق پتا چل جائے گا۔ جہاں تک عمران خان صاحب کا تعلق ہے تو اگر ان کا بنی گالا والا گھر ہی لے لیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ بیس پچیس کروڑ کا ہو تو میرے خیال میں کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں اس میں سچ نہیں بولا۔‘‘

طارق بٹ کا مزید کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے اثاثوں میں میں لاہور کے نزدیک جاتی عمرہ میں شریف خاندان کی رہائش گاہوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ خیال رہے کہ متعدد ارکان پارلیمنٹ کے مطابق ان کے پاس ذاتی گھر اور گاڑی بھی نہیں ہے۔

حال ہی میں دو غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ متعدد ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے ادا کیے گئے انکم ٹیکس اور ان کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کی تفصیلات میں تضاد ہے۔

الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے مالی سال 2012ء اور 2013ء کے لیے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر جاری کی تھی
الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے مالی سال 2012ء اور 2013ء کے لیے ظاہر کیے گئے اثاثوں کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر جاری کی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندوں کی اس مبینہ غلط بیانی سے نمٹنے کے لئے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکثر ارکان پارلیمنٹ نے مکان اور گاڑیاں اہل خانہ اور قریبی رشتے داروں کے نام کرا رکھی ہوتی ہیں جس کا کھوج لگانا متعلقہ اداروں کا کام ہے۔ طارق محمود کا مزید کہنا تھا: ’’اس کے لیے پھر نئی قانون سازی کرنا پڑے گی اور ظاہر ہے کہ نئی قانون سازی بھی انہی لوگوں نے کرنی ہے جنھوں نے یہ اثاثہ جات ظاہر کیے ہیں تو پھر یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایسا قانون بنائیں۔ لیکن بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ جولوگ ہمارے نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں اور دوسروں کی باز پرس کرتے ہیں ان کا اپنا بھی تو احتساب ہونا چاہیے۔‘‘

پاکستانی آئین کے مطابق کسی بھی رکن پارلیمنٹ کا صادق اور امین ہونا لازمی ہے ورنہ وہ اپنی نشست پر رہنے کا اہل نہیں۔ تاہم ابھی تک اس بنیاد پر صرف انہی ارکان پارلیمنٹ کو اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑے جن کے خلاف عدلیہ نے کارروائی کا حکم دیا تھا۔