’پاکستان تو بنا ہی مسلم مہاجرین کے لیے تھا‘
5 ستمبر 2017میانمار میں روہنگیا مسلم کمیونٹی کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک کے علاوہ سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس پر پاکستانی عوام بھی بے چین نظر آ رہے ہیں۔
بنگلہ دیش، روہنگیا مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی
میانمار بحران، انسانی المیے کی صورتحال ابتر ہوتی ہوئی
سیاستدانوں کے علاوہ اب مختلف شعبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی کئی معروف ملکی شخصیات بھی میانمار میں جاری بحرانی خونریزی اور روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر افسوس کر رہی ہیں۔
مشہور پاکستانی کرکٹرز اور کئی دیگر سماجی شخصیات نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان سرحد پر پھنسے روہنگیا مسلمانوں کی مدد کی جائے۔ سابق کپتان اظہر علی کے علاوہ سابق مایہ ناز اسٹار کھلاڑی شاہد خان آفریدی نے بھی میانمار کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
نوبل امن انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغامات میں کہا ہے کہ روہنگیا کمیونٹی کی مدد کی جانا چاہیے۔
ادب کی دنیا میں اپنا ایک منفرد تشخص بنا لینے والی فاطمہ بھٹو نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا واحد ملک ہے، جو مسلمان مہاجرین کو پناہ فراہم کرنے کی خاطر بنایا گیا تھا اور اب پاکستان ان روہنگیا مسلمانوں کو پناہ کیوں نہیں دے رہا۔
فاطمہ بھٹو کی اس ٹویٹ پر کامنٹس کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا تو فاطمہ بھٹو نے لکھا کہ روہنگیا افراد کو صرف اس لیے پناہ نہیں دینا چاہیے کہ وہ مسلمان ہیں، بلکہ انہیں اس لیے پناہ دینا چاہیے کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔
فاطمہ بھٹو پاکستان کے سیاسی اور سماجی مسائل پر رائے دینے کے علاوہ عالمی معاملات پر بھی گفتگو کرتی رہتی ہیں۔ بالخصوص ٹوئٹر پر وہ بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ ان کے فالوورز کی تعداد 1.91 ملین ہے۔ میانمار کی موجودہ صورتحال پر اپنی حالیہ ٹویٹس سے قبل بھی وہ اس معاملے پر کئی بار اپنی تشویش کا اظہار کر چکی تھیں۔
تاہم سوشل میڈیا صارفین میں سے کچھ نے فاطمہ بھٹو کے ان تازہ ٹوئٹر پیغامات پر اگر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تو کچھ نے ان کی بڑی ستائش بھی کی۔ میانمار کی ابتر صورتحال پر نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی خاموشی پر انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملالہ یوسفزئی نے بھی کہا ہے کہ سوچی کو اس تشدد کی مذمت کرنا چاہیے۔
<iframe src="https://www.facebook.com/plugins/video.php?href=https%3A%2F%2Fwww.facebook.com%2Fdw.urdu%2Fvideos%2F10155710530607210%2F&show_text=1&width=560" width="560" height="420" style="border:none;overflow:hidden" scrolling="no" frameborder="0" allowTransparency="true" allowFullScreen="true"></iframe>
تاہم کئی صارفین نے ملالہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہیں سوچی سے صرف مذمتی بیان جاری کرنے کی درخواست نہیں کرنا چاہیے بلکہ میانمار میں جاری ظلم و ستم کا سلسلہ رکوانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔