پاکستان میں انسانی حقوق: 2010ء ’تباہ کن’سال رہا
25 جنوری 2011اس تنظیم نے اپنی اکیسویں سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان اور دیگر مذہبی انتہاپسند گروپوں نے سویلین آبادی اور عوامی مقامات پر حملوں میں اضافہ کر دیا۔ اس کے جواب میں پاکستانی حکومت نے جو کارروائی کی، اس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کی گئیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی اس سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان، القاعدہ اور ان کے ساتھیوں کے خودکش اور مسلح حملوں سے پاکستانی معاشرے کا ہر حصہ متاثر ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں گزشتہ سال مئی میں لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں سو افراد کی ہلاکت کے علاوہ یکم جولائی کو داتا گنج بخش کے مزار پر خودکش حملوں میں تینتالیس افراد کی ہلاکت کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
شورش زدہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے عام افراد پر حملوں کو جنگی جرائم کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے جنوبی ایشیاکے لیے نمائندے علی دایان حسن کے مطابق طالبان کے مظالم کو خفیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود بعض عناصر کی مبینہ پشت پناہی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں مشتبہ طالبان کو بغیر کسی الزام کے غیر قانونی طور پر حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔
ادھر پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس طرح کی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں پاکستانی فوجیوں کو سوات میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”حکومت پاکستان اور مسلح افواج کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں فوری تحقیقات کریں اور اس بات کا انتظار نہ کریں کہ کوئی بیرونی ملک انہیں اس بارے میں کوئی ڈکٹیشن دے۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امریکہ پاکستان کا سب سے قابل ذکر حلیف ہے۔ اس نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر پاکستانی فوج کے چھ یونٹوں پر پابندیاں تو عائد کیں، لیکن اسی دوران پاکستانی فوج کے لیے دو ارب ڈالر کی امداد کا اعلان بھی کیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستانی قبائلی علاقوں پر مبینہ امریکی ڈرون طیاروں سے میزائل حملوں میں جو اضافہ ہوا، اس میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کے دعوے بھی کیے گئے ہیں تاہم ان علاقوں تک رسائی نہ ہونے کے سبب ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی آڑ میں مذہبی اقلیتوں اور کمزور سماجی گروپوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی رہنے والی ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسے عدالت سے انصاف مانگنے کے بدلے دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے ماورائے آئین اقدام کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کو آسیہ بی بی کو معافی دینے سے بھی روک دیا۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکومت کو تیس دسمبر کو توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے اپنے وعدے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی معاملے پر سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا جبکہ سابق وزیر اطلاعات شیری رحمن کو بھی قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کرے۔
معروف وکیل جسٹس (ر) طارق محمود کا کہنا ہے، ”توہین رسالت سے متعلق قانون پر نظر ثانی پارلیمنٹ کا حق ہے جسے چھینا نہیں جا سکتا۔‘‘
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت پر تنقید کے باوجود میڈیا کو گزشتہ حکومت کے مقابلے میں اس مرتبہ کم مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ رپورٹ کے مطابق میڈیا نے فوج کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بہت کم بات کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی عدلیہ نے خود کو ملنے والی آزادی کو آئینی اختیارات سے تجاوز کرنے اور پارلیمنٹ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے تنازعات کو جنم دیا۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں