پاکستان میں دہشت گردانہ حملے: لائیو کوریج پر پابندی ممکن
2 جولائی 2010بعض نیوز چینلز نے تو حملوں کو فوراً بعد سکیورٹی کیمروں سے بنی ہوئی وہ فلم بھی حاصل کر کے براہ راست نشر کر دی، جس میں خودکش بمباروں کو مزار کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد دھماکے کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ملکی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کے خوفناک واقعات کی کوریج کے لئے مناسب ضابطہ اخلاق اپنانے کے بارے میں طویل عرصے سے حکومتی سطح پر بحث جاری ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں قومی اسمبلی کی ایک قائمہ کمیٹی PEMRA آرڈیننس 2002ء میں ترمیم کے بل 2010 پر ایک رپورٹ بھی قومی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے، جس میں دہشت گردانہ واقعات کی براہ راست کوریج پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
تاہم غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار سوک ایجوکیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان کے مطابق اس ضابطہ اخلاق کی تیاری میں تاخیر سے معاشرتی سطح پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’جب آپ انتہائی پریشان کر دینے والے خونریز واقعات کی براہ راست کوریج کرتے ہوئے لاشیں دکھاتے ہیں تو اس کا دیکھنے والے بڑا منفی اثر پڑتا ہے۔ ایک شخص جو اپنی روح اور جسم پر اختیار نہیں رکھتا، اس کو اس طرح دکھانا میرے خیال میں بنیادی انسانی حرمت کی بھی نفی ہے، جو انسانی وقار کے منافی ہے اور اس کا اثر بھی بہت منفی ہوتا ہے۔‘‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے رکن اور ایم کیو ایم کے رہنما فرحت محمد خان کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ ذرائع ابلاغ کے لئے ایسا کوئی متفقہ ضابطہ اخلاق کب تک طے کیا جا سکے گا۔ البتہ ان کے مطابق اس حوالے سے ٹی وی چینلز کے مالکان کی تنظیم پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کی تجاویز بھی اہم ہوں گی۔
’’قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے جو سفارشات پیش کی ہیں، ان پر 15 جولائی کو پیمرا ہیڈکوارٹر میں ہونے والے اجلاس کے دوران غور کیا جائے، اس کے بعد ہی ان سفارشات پر بات کی جا سکتی ہے۔‘‘
فرحت محمد خان کے مطابق متفقہ ضابطہ اخلاق کی تیاری سے قبل نیوز چینلز کو چاہئے کہ وہ از خود ایسے واقعات کی کوریج پر پابندی عائد کر دیں، جنہیں نشر کرنے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہو۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں