پاکستان میں ملٹری کورٹس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟
24 جون 2023رواں سال نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران کور کمانڈر ہاؤس لاہور اور جی ایچ کیو راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں فوجی تنصیبات اور عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔ ان حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی میں بھی کیا گیا تھا۔
ایک طرف حکومتی اتحاد میں شامل بعض پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتیں نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے کی حمایت کر رہی ہیں، جن کا کہنا ہے پاکستان کے آئین میں ملٹری کورٹس میں سیویلینز کا ٹرائل کرنے کی گنجائش موجود ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ دوسری طرف میڈیا کے بعض حصے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، وکلا نمائندوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
نو مئی واقعات کی مذمت کرتے ہوئے 'استحکام پاکستان پارٹی' کی بنیاد رکھ دی گئی
پاکستانی سیاست میں اب تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، سپریم کورٹ کا ایک سات رکنی بنچ نو مئی کے واقعات میں ملوث سویلین افراد پر مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانے کے خلاف دائر کی جانے والی ایک اہم درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ عدالت کے روبرو پاکستان کے اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان بتا چکے ہیں کہ اب تک 102 افراد فوج کی حراست میں دیے جا چکے ہیں۔ ان کے بقول ان میں کوئی کم سن بچہ یا خاتون نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فوج کی تحویل میں ایک بچہ آیا ہے جس کے بارے میں چھان بین کی جا رہی ہے اور اگر اس کی عمر 18سال سے کم ہوئی تو اس کو واپس کردیا جائے گا۔
تجزیہ نگار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فوجی عدالتوں کا معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہے اور اس بارے میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ سنگین جرم تھا اور اس کی سخت سزا ضرور ملنی چاہیے، لیکن ان کے خیال میں سویلین افراد کے ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام پاکستان کی عدالتیں بھی بخوبی کر سکتی ہیں اور فوجی عدالتوں میں سویلین کے خلاف مقدمات چلانا ایک طرح سے ملکی نظام عدل پر عدم اعتماد کے مترادف ہوگا: ''فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے سے پاک فوج اور عوام کو قریب لانے میں مدد نہیں ملے گی۔ بلکہ اس سے ملک کی سیاست میں مزید تلخی آئے گی۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھ سکتا ہے اور عالمی سطح پر بھی کوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا۔‘‘
سلمان عابد کے خیال میں جو سیاسی جماعتیں نو مئی کے واقعات کی آڑ میں اپنے اسکور سیٹل کرنے کے لیے ملٹری کورٹس کی حمایت کر رہی ہیں ان کی اس پالیسی کو دھیان میں رکھنے کی ضرورت ہے: ’’اگر ہم دنیا کے سامنے ایک جمہوری،آئین کی پاسداری اور قانون کی بالا دستی والا پاکستان پیش کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ مقدمات عام عدالتوں میں چلانے چاہییں اور نو مئی کو ورغلائے جانے والے سیاسی کارکنوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر پاکستان ملٹری ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس حاضر سروس دفاعی اہلکاروں کے مقدمات کی سماعت کے لیے بنائی گئی تھیں لیکن بعد ازاں جنرل ایوب کے دور میں اس کے دائرہ کار کو بڑھا کر اسے سیویلن افراد کے مقدمات سننے کا اختیار بھی دے دیا گیا تھا۔ اسی طرح پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد بھی محدود مدت کے لیے ملٹری کورٹس کو سویلین افراد کے خلاف مقدمات چلانے کی اجازت دی گئی تھی جو کہ بعد ازاں ختم ہوگئی۔
پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار منیب فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں ملٹری ٹرائل کوئی انہونی بات نہیں ہے: ’’پچھلے دور میں بھی سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا تھا۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل تیز رفتاری سے مکمل ہوتا ہے اور اس میں شواہد اور شہادتوں کو دیکھا جاتا ہے۔ کئی دفعہ لوگ بری بھی ہو جاتے ہیں لیکن اس کی ساکھ پر سوال بھی اٹھاتے جاتے ہیں کہ آئین کے مطابق یہ ٹرائل منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ ‘‘
منیب فاروق کے مطابق، ’'اس وقت پاکستان تحریک انصاف مشکل میں ہے اور یہ مشکلات عمران خان نے اپنے لیے خود پیدا کی ہیں۔ انہوں نے پاک فوج کی قیادت کے خلاف سنگین الزامات لگائے۔ نو مئی کے واقعات میں ان کا نام بھی آ رہا ہے اور ان کے خلاف ملٹری کورٹس میں کاروائی کرنا اگرچہ آسان تو نہیں ہوگا لیکن اس وقت جو صورتحال ہم دیکھ رہے ہیں اس میں عمران خان کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلائے جانے کے امکانات بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ‘‘
منیب فارووق سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان کو ملٹری کورٹ سے سزا ہوگئی تو اس سے ملک میں ایک نئی مثال قائم ہو جائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ آرمی پر حملہ کرنے والوں کے لیے کوئی معافی نہیں لیکن اس کے سیاسی اثرات اچھے نہیں ہوں گے اس مثال کے بعد اس طرح کی مشکل میں کسی دوسری جماعت کا سربراہ بھی آ سکتا ہے: ''ملٹری کورٹس میں اپیل کی گنجائش تو ہوتی ہے لیکن بہت محدود نکات ایسے ہوتے ہیں جن کو ریویو کیا جا سکتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے گنجائش میں اضافہ کرتی ہے یا نہیں۔‘‘
سینئر تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سیاسی کارکنوں کے مقدمات سویلین عدالتوں میں ہی چلنے چاہییں: ’’ملٹری کورٹس کا منظم ماحول دفاعی اہلکاروں کے مقدمات کے ٹرائل کے لیے تو درست ہو سکتا ہے لیکن سویلین افراد کے مقدمات کی کھلی سماعت ضروری ہے۔‘‘
ان کے خیال میں مخصوص حالات میں سویلین کے مقدمات کو ملٹری کورٹس دیکھ سکتی ہیں لیکن ان مخصوص حالات کا تعین بہت احتیاط کے ساتھ اور منصفانہ طریقے سے کیا جانا ضروری ہے۔ حسن عسکری کے مطابق نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو دہشت گرد قرار دینا مناسب نہیں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین عام طور پر وسیع انداز میں بنایا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ان شقوں کو اپنی مرضی کا مطلب دے کر اپنے مفاد میں موڑ لیں۔