پاکستان میں پھانسیوں پر عملدرآمد ’ملتوی‘ رہے گا
18 اگست 2013یہ فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پانچ برس کے التوا کے بعد ان سزاؤں پر عملدرآمد بحال ہونے کو تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی نئی حکومت نے اس بندش کا خاتمہ کر دیا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومت موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کے ذریعے جرائم پیشہ افراد اور اسلام پسندوں پر قابو پانا چاہتی تھی۔
تاہم اتوار 18 اگست کو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے اعتراضات کی وجہ سے پھانسیوں پر عملدرآمد عارضی طور پر رُکا رہے گا۔
حکومت نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ صدر زرداری کے وطن لوٹنے تک یہ حکم امتناعی فعال رہے گا اور واپسی پر وہ اس حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کریں گے۔
آصف علی زرداری آٹھ ستمبر کو صدارت کے منصب سے سبکدوش ہو رہے ہیں جس کے بعد نومنتخب صدر ممنون حسین عہدہ سنبھال لیں گے۔
پاکستان رواں ہفتے صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں بدھ یا جمعرات کو کالعدم شدت پسند گروہ لشکرِ جھنگوی کے دو سزا یافتہ قاتلوں کو پھانسی دینا چاہتا تھا۔
سزائے موت کا سامنا کرنے والے بعض دیگر قیدیوں کی پھانسیاں بھی رواں ہفتے متوقع تھیں۔ جمعے کو ہیومن رائٹس واچ اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ سزائے موت کا سامنا کرنے والے افراد کی سزاؤں میں تبدیلی کی جائے اور موت کی سزا ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے۔
ایشیا پیسیفک کے لیے انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے ڈائریکٹر سیم ظریفی کا کہنا تھا: ’’پھانسیوں پر عمل درآمد کی بحالی سے انسانی حقوق کے لیے جمہوری ملک پاکستان کی واضح کامیابیاں پٹری سے اتر جائیں گی۔‘‘
انسانی حقوق کے گروپوں نے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زائد قیدیوں کو سزائے موت کا سامنا ہے۔ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔
پاکستانی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ 450 سزا یافتہ افراد کے مقدموں کا جائزہ لیا جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق حکومت کے دوران ایک فوجی کے علاوہ کسی کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تھا۔ اس فوجی کو بھی یہ سزا کورٹ مارشل کی ایک کارروائی میں دی گئی تھی جس پر 2008ء میں عملدرآمد کیا گیا۔
پاکستانی طالبان کہہ چکے ہیں کہ ان کے کسی قیدی کو پھانسی دی گئی تو وہ اسے اعلانِ جنگ تصور کریں گے۔