پاکستان کی ليے ڈیڑھ ارب ڈالر رقم کا سعودی ’تحفہ‘ باعث تنازعہ
19 مارچ 2014پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اتنی بڑی امداد کو تو ’گينس بک آف ورلڈ ریکارڈ‘ میں درج کرايا جانا چاہیے۔ خیال رہے کہ سعودی عرب ماضی میں بھی پاکستان کو مالی امداد فراہم کرتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ اس امداد کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور بظاہر اس کی وجہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال، خصوصاً شام اور سعودی عرب کے کشیدہ تعلقات ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایک رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے، ’’یہ ایک المیہ ہے کہ بڑے زور و شور سے کہا جا رہا ہے کہ یہ شخصی ضمانت پر دی گئی رقم ہے۔ ملکوں کے درمیان لین دین ملکوں کے درمیان ہوتا ہے، ہاں افراد کے آنے سے یقیناً فرق پڑتا ہے۔ جب سے میاں صاحب آئے ہیں یہاں بادشاہوں کی آمد و رفت بہت ہے۔ سعودی عرب نے جب جب پاکستان کو پیسہ دیا، اس کی ایک قیمت ضرور ادا کرنا پڑی۔‘‘
بعض حلقوں کے مطابق سعودی عرب اس تحفے کے بدلے شام سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی چاہتا ہے۔ تاہم رواں ہفتے کے آغاز پر سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی شام کے حوالے سے پالیسی تبدیل نہیں ہو گی اور نہ ہی سعودی عرب کو شامی باغیوں کے لیے ہتھیار مہیا کیے جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے سعودی عرب کی امداد کے بدلے شام سے متعلق خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی تو اس کے بین الاقوامی ردعمل کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھی منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہيں۔ ان تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں فرقہ واریت پہلے ہی عروج پر ہے اور اگر پاکستان نے شام کے حوالے سے رياض حکومت کی مدد کی، تو ملک میں شیعہ سنی فسادات بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔
عوامی مسلم لیگ کے رہنما شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اگر حکومت شفافیت کا دعویٰ کرتی ہے، تو اسے سچ سامنے لانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم گھاس پھوس کے لوگ ہیں، ہم کوئی جڑی بوٹیاں یا گلی سڑی سبزیاں ہیں کہ ہمیں یہ نہ پتہ چلے کہ یہ پیسہ کس لیے آیا۔ بتا دو ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں، اگلی قسط بھی لے آئیں، ہمیں اعتراض نہیں لیکن یہ بتا دیں کہ یہ پیسہ کس مقصد کے لیے ہے۔‘‘
بعض حکومتی ناقدین کا کہنا ہے کہ سعودی امداد کا ایک مقصد پاکستان میں غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے والے فوجی آمر پرویز مشرف کو ملک سے نکلنے کا محفوظ راستہ مہیا کرنا ہے۔ تاہم حکومتی عہدیدار اس طرح کی کسی بھی صورتحال کو مسترد کرتے ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کا کہنا ہے، ’’پیپلز پارٹی اس وقت صحیح طریقے سے بات کرتی تو سعودی حکومت مدد کر سکتی تھی۔ اگر سعودی حکومت نے میاں صاحب کے ذاتی تعلقات کی وجہ سے یہ کیا ہے، تو میرے خیال میں اس کو سراہنا چاہیے، فائدہ تو ملک کا ہی ہے۔‘‘
دریں اثناء خلیجی ریاست کے شاہ شیخ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ بھی اس وقت تین روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد میں سول اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس دورے کا مقصد بظاہر اقتصادی تعاون بتایا جا رہا ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بحرین کے شاہ کا دورہ بھی مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے پس منظر میں ہے اور وہ اپنے ملک میں شیعہ مظاہرین پر قابو پانے کے لیے خصوصی سیکورٹی فورسز میں ریٹائرڈ پاکستانی فوجیوں کی بھرتی پر بات چيت کے ليے آئے ہیں۔