پاکستان کے سیلاب نے سونامی سے زیادہ تباہی مچائی
10 اگست 2010یہ اعلان نیویارک میں یو این کے صدر دفتر میں سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کیا۔ یو این کے مطابق متاثرین کی مجموعی تعداد کا اندازہ ایک کروڑ چالیس لاکھ کے برابر ہوچکا ہے۔ بان کی مون نے کہا کہ بہت جلد باضابطہ طور پر امدادی اداروں سے ہنگامی امداد کی اپیل کی جائے گی۔
انہوں نے پہلے ہی پاکستانی متاثرین کی دل کھول کر امداد کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔ بان کی مون نے مزید کہا کہ صورتحال اتنی گھمبیر ہے کہ پاکستان کو طویل اور وسط مدتی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
یو این کے علاوہ پاکستانی حکومت بھی بین الاقوامی برادری سے مزید ہنگامی بنیادوں پر امداد کی اپیلیں کر رہی ہے۔ پاکستان کی وادی ء سوات سمیت پنجاب اور سندھ صوبوں کے بعض علاقوں کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پنجاب میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے قوم سے متحد ہونے کی اپیل کی اور کہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا شدید ترین سیلاب ہے۔
پاکستانی حکومت کے مطابق بیرونی امداد کی مد میں 93 ملین ڈالر کے وعدے کئے گئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق مشتبہ شدت پسندوں سے روابط رکھنے والی خیراتی تنظیمیں امدادی سرگرمیوں میں زیادہ پیش پیش نظر آرہی ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لئے امریکی فوجی ہیلی کاپٹرز بھی اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔
پاکستان میں یو این کے دفتر برائے رابطہ ء انسانی معاملات کے ترجمان تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ بربادی کے منظر ہیٹی کے زلزلے اور 2005ء میں پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام منقسم کشمیر میں آئے زلزلے سے بھی بھیانک ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں 2005ء کے زلزلے میں تیس لاکھ افراد، 2004ء کے سونامی میں پچاس لاکھ افراد اور رواں سال ہیٹی میں آئے زلزلے میں تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے جبکہ حالیہ سیلابوں نے پاکستان کے لگ بھگ ایک کروڑ 38 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے۔
یو این کی جانب سے پاکستان میں آئے سیلاب میں 16 سو ہلاکتوں کی تصدیق کی جاچکی ہے جبکہ حکومتی سطح پر یہ تعداد 1243 بتائی جارہی ہے۔
2004ء سونامی سے جنوب مشرقی ایشیاء میں دو لاکھ بیس ہزار افراد کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کے سیلاب نے پچاس ہزار افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ مرکزی پنجاب میں چودہ لاکھ ہیکٹر زرعی اراضی تباہ ہوئی ہے تاہم خیبر پخوانخوا میں نقصان اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف/خبر رساں ادارے
ادارت: گوہر نذیر گیلانی