’پریانکا سیاست کے آغاز میں ہی متاثر کر گئیں‘
15 فروری 2019وہی معصوم مسکراہٹ، وہی سادگی، وہی جاذبیت، وہی کشش اور عوام سے ان کا وہی جانا پہچانا اندازِ تخاطب، جو ان کا خاصہ قرار دیا جاتا ہے۔ لکھنو میں اپنے حامیوں کے ساتھ ملاقاتوں میں خصوصاً مسلمانوں کی طرف انہوں نے جب جب دیکھا تو ان کی نگاہوں میں جو اپنائیت جھلکتی تھی، اس سے کوئی بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔
پریانکا گاندھی نے لکھنو اپنے چار دن کے قیام کے دوران کانگریس کے پرانے سے پرانے اور نوجوان کارکنوں سے ملاقاتوں کی بدولت اُس کانگریس میں نئی جان پھونک کر ان میں جوش و ولولہ بھر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جو پچھلی تین دہائیوں سے پھیکا پھیکا سا پر چکا تھا۔
نشانہ ہدف پر، کوشش سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کی، بکھرے پارٹی انتظامیہ کو یکجا کرنے کی الجھن میں ان کی بات چیت میں نہ تلخی تھی اور نہ جھنجھلاہٹ، اور تو اور ان کے سوالوں سے پریشان کئی کانگریسیوں کے تو پسینہ آ گیا۔ اتوار کو روڈ شو کے بعد دیر شام پریانکا جے پور چلی گئی تھیں۔ منگل کو صبح واپس آکر دوپہر قریب ڈیڑھ بجے سے کانگریسیوں سے ملنے کا جو سلسلہ انہوں نے شروع کیا وہ بدھ کی صبح سوا پانچ بجے تک چلتا رہا۔ علیٰ الصبح بھی ان کے چہرے پر تھکان کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ مال ایونیو کے کانگریس دفتر کے احاطے میں رات بھر لوگ ٹہلتے رہے۔ چند دنوں پہلے تک کسی بھی سرگرمی سے خالی مال ایونیو کے اس علاقہ میں جب تک پریانکا گاندھی رہیں، میلے کا سا منظر رہا۔
تین دنوں میں پریانکا نے اپنے ذمہ مشرقی یوپی کی اکتالیس سیٹوں میں سے تقریباً تین درجن پارلیمانی سیٹوں کی جائزہ میٹنگ میں انہوں نے کہا کہ یوپی میں کانگریس کو وہی عزت و وقار چاہیے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ پریانکا سے مل کر واپس آنے والے کانگریسیوں کے چہرے آس و امید سے پُر تھے۔ ان کی چال میں اعتماد بھی جھلک رہا تھا۔
کانگریس کا جنرل سیکرٹری اور مشرقی یوپی کا انچارج بنائے جانے کےبعد پہلی مرتبہ پریانکا کے لکھنؤ میں ہوئے روڈ شو میں جو ہجوم سڑکوں پر نکلا، اس سے مخالفین کے ماتھے پر فکر کی لکیریں صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔ پورے صوبے سے لاکھوں لوگ روڈ شو میں از خود شامل ہوئے، جن میں مسلم افراد کی تعداد اوروں کے مقابلہ زیادہ رہی۔
پرانے لکھنؤ کی تین سگی بہنیں، سائمہ، سمیا اور ایمن صبح گیارہ بجے سے ہی گلاب کے پھول لیے لال باغ چوراہے پر پریانکا سے ملاقات کی خاطر کھڑی تھیں۔ سیتاپور سے آئے شمشاد کا کانگریس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ صرف پریانکا کو دیکھنے کے لیے ہی لکھنؤ آ گئے تھے۔
اس سے پہلے دہلی میں جب پریانکا نے بطور کانگریس جنرل سیکرٹری عہدہ سنبھالا تھا اور سکیورٹی دستوں کے لیے پریانکا گاندھی کی حمایت میں نعرے لگانے والوں کی بھیڑ سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا، تب بھی پریانکا نے ملاقات کے لیے جن دو نوجوانوں کا انتخاب کیا تھا، وہ بھی مسلمان ہی تھے۔
روڈ شو میں ان کے ساتھ ان کے بھائی اور کانگریس صدر راہل گاندھی بھی تھے جنہوں نے روڈ شو کے بعد کانگریسی لیڈران اور کارکنان سے کہا کہ انہیں یوپی میں کانگریس کی سرکار چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ایس پی اور بی ایس پی کے یوپی میں تیار ہوئے اتحاد کے بارے میں کہا کہ ’ہم دونوں پارٹیوں کا احترام کرتے ہیں‘۔
پریانکا نے اپنے قیام کے دوران سبھی کانگریسی کارکنان سے باضابطہ ایک فارم بھروایا ہے جس پر ان کے بارے میں تفصیلی معلومات کے علاوہ سبھی کو ایک موبائل نمبر بھی دیا گیا ہے، جس سے وہ ’چوپال‘ سے رابطہ کر سکیں گے۔ چوپال در اصل کانگریس کے قومی دفتر سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا کا حصہ ہے۔
اس کے علاوہ پریانکا گاندھی سبھی ملنے والوں سے یہ پوچھنا قطعی نہیں بھولیں کہ ان کے علاقوں میں ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد کا کیا اثر ہے۔ مانا یہ جا رہا ہے کہ پریانکا گاندھی ایسا کوئی اشارہ تک نہیں دینا چاہتیں جو یوپی میں تیار ہوئے ایس پی اور بی ایس پی کے اتحاد کے خلاف جاتا ہو۔ اسی لیے وہ سبھی سے ملاقات کے دوران یہ کہنا نہیں بھولیں کہ مقصد ایک ہی ہے۔
پرینکا کی نگاہ یوپی کے پسماندہ طبقات پر بھی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے مہان پارٹی اور دو بی کے پی کے لیڈروں کو بھی کانگریس میں شامل کیا۔ پریانکا گاندھی کے ساتھ یوپی کے دوسرے انچارج جیوترادتیہ سندھیا نے بھی اس دوران مغربی یوپی کے کارکنان سے لگاتار ملاقاتیں کیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی کل پانچ سو تینتالیس سیٹوں میں سب سے زیادہ اسی سیٹیں یوپی میں ہی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم بھی یوپی کی بنارس سیٹ سے ممبر آف پارلیمنٹ ہیں۔ یوپی سے اب تک آٹھ وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں۔