پشاور: بم دھماکے میں ایک صحافی ہلاک
11 مئی 2011مقامی پولیس (گلبرگ) کا کہناہے کہ انہوں نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہےانکا کہنا ہے کہ دھماکہ بم پھٹنے سے ہوا ہے، جس سے گاڑی میں سوار نصراللہ آفریدی جان بحق ہوگئے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جونہی نصراللہ آفریدی گاڑی میں سوار ہوئے ایک زوردار دھماکہ ہوا جسکے بعد گاڑی میں آگ لگ گئی بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکے میں چار کیلوگرام بارودی مواد ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے رکھا گیا تھا۔ وقوعہ سے ملنے والے مواد کی رو سے انکا کہنا تھا کہ یہ ایک ریموٹ کنٹرول بم تھا۔ خیبریونین آف جرنلسٹس کے صدر ارشد عزیز ملک نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ڈویچے ویلے کو بتایا ۔’ یہ 25 واں صحافی ہے جو پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں قتل ہوا ہے۔
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے اور ساتھ ساتھ دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والے عناصر کے خلاف انکوائری رپورٹس عوام کے سامنے لاکر ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ عدالتوں سے انہیں سزاء دلائی جاسکے۔‘ انکا کہنا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار اد کرہے ہیں سارا دباﺅ یہاں کے اداروں اور صحافیوں پر آتا ہے اور اسی دباﺅ کی وجہ سے کئی صحافی قبائلی علاقوں کو چھوڑکر پشاور اور دیگر شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں لیکن یہاں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں انکا کہنا تھا کہ جن اداروں میں یہ صحافی کام کرتے ہیں انکا فرض بنتا ہے کہ وہ انہیں بہترمراعات کے ساتھ وارزون میں رپورٹنگ کی تربیت کے مواقع بھی فراہم کریں۔
نصراللہ آفریدی کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقے خیبرایجنسی کے تحصیل باڑہ سے تھا اور وہ مقامی اخبار کے ساتھ سرکاری ٹی وی کیلئے بھی کام کرتا رہا انکے قریبی ساتھیوں کا کہناہے کہ انہیں کئی مرتبہ بعض تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں ملتی رہی جسکی وجہ سے وہ 2007ء میں پشاور کے علاقہ حیات آباد منتقل ہوا تھا، جہاں انکے گھر پر دستی بموں سے حملے بھی کروائے گئے۔ سال رواں کے دوران پاکستان میں ذمہ داری نبھاتے ہوئے مرنیوالوں میں نصراللہ خان آفریدی تیسرے صحافی تھے جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں گزشتہ سال گیارہ صحافیوں کو قتل کیا گیا صحافیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہونے کے بعد شروع ہوا 2002ء سے اب تک پاکستان میں چالیس صحافی ڈیوٹی کے دوران قتل کیے گئے جن میں زیادہ تر قبائلی علاقوں اورخیبرپختونخوا کے صحافی شامل ہیں ۔ جن میں 25 کا تعلق قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا سے ہے۔
رپورٹ: فریداللہ خان
ادارت: کشور مصطفیٰ