پشاور حملہ: کم از کم ساٹھ اموات، طالبان کا اظہار لاتعلقی
30 جنوری 2023کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کے جاری کردہ ایک وضاحتی بیان کے مطابق ان کی تنظیم اس واقعے میں ملوث نہیں ہے۔ ان کے بقول ٹی ٹی پی کے دستور میں مدارس، مساجد، جنازہ گاہوں اور دیگر مقدس مقامات پر کسی بھی طرح کی کارروائی کی اجازت نہیں۔
اس سے قبل تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک کمانڈر سربکف مہمند نے ٹوئٹر پر ایک پیغام کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ مہمند نے کہا تھا کہ یہ حملہ احمد ولی عرف عمر خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ تھا۔ خراسانی اگست 2022ء میں افغانستان کے صوبے پکتیا میں مارا گیا تھا۔
مقامی حکام کے مطابق پیر کے روز اس مسجد میں جب یہ خودکش حملہ کیا گیا، اس وقت وہاں نمازیوں کی تعداد تین سو کے لگ بھگ تھی اور کافی زیادہ نمازی ابھی راستے میں بھی تھے۔ اس واقعے میں کم از کم ڈیڑھ سو افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ابھی تک یہ غیر واضح ہے کہ خود کش بمبار اس مقابلتاً محفوظ تصور کیے جانے والے کمپاؤنڈ میں کس طرح پہنچا۔ چار دیواری میں گھرا یہ علاقہ پشاور کے انتہائی حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں دیگر حکومتی عمارتوں کے علاوہ پولیس کے مختلف شعبوں، بشمول انسداد دہشت گردی کے محکمے کے، ریاستی خفیہ اداروں کے دفاتر بھی واقع ہیں۔
پشاور پولیس کے سربراہ محمد اعجاز خان نے خبر رساں اداروں کو بتایا کہ بہت سے افراد بدستور ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان کے بقول یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے۔ حکام کے مطابق ہلاک شدگان میں زیادہ تر تعداد پولیس اہلکاروں کی ہے۔
وزیراعظم کا دورہ پشاور
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اس واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے ٹویٹ کی، ''اتنے بڑے پیمانے پر انسانی المیہ ناقابل تصور ہے۔ دہشت گرد ان افراد پر حملہ کر کے خوف پھیلانا چاہتے ہیں، جو پاکستان کے دفاع کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔‘‘ زخمیوں سے ملنے کے لیے پشاور پہنچنے پر شہباز شریف نے مزید کہا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے غم کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی تعزیت
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسے انتہائی خوفناک حملہ قرار دیتے ہوئے مرنے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔ امریکی سفارت خانے کے مطابق، ''امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے پشاور کی مسجد میں ہوئے اس حملے کی مذمت کی ہے، '' خاص طور پر عبادت گاہوں پر اس طرح کے حملے قابل نفرت عمل ہے۔‘‘
اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے نے بھی ایک مذمتی بیان جاری کیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے مطابق کابل حکومت کو اتنی بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرا افسوس ہے۔
عمران خان کی طرف سے بھی اظہار افسوس
سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس بم حملے کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''میری دعائیں اور تعزیت متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنی خفیہ معلومات جمع کرنے کے سلسلے کو بہتر بنائیں اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنی پولیس فورس کو مناسب اسلحے سے لیس کریں۔‘‘
یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے، جب پیر کے روز متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زید النہیان پاکستان کے اپنے دورے پر اسلام آباد پہنچنے والے تھے۔ تاہم ان کا یہ دورہ آخری لمحات میں موسم کی خرابی کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں منگل کے روز بین الاقوامی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کا ایک وفد بھی اسلام آباد پہنچ رہا ہے، جو پاکستان کے لیے اس ادارے کے امدادی پیکج سے متعلق مذاکرات کرے گا۔
پاکستان میں گزشتہ برس نومبر سے دہشت گردانہ حملوں میں اس وقت سے کافی اضافہ ہو چکا ہے، جب تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کے ساتھ اپنا فائر بندی معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ع ا / م م (خبر رساں ادارے)