پنجاب میں دہشت گردی، ذمہ دار پنجابی طالبان؟
1 جون 2010زندہ گرفتار کئے جانے والے دو دہشت گردوں میں سے ایک سے ابتدائی تفتیش کے دوران ملنے والی معلومات کے مطابق ان وارداتوں میں ملوث شدت پسندوں کا تعلق تحریک طالبان پاکستان کی پنجاب شاخ سے تھا۔ زیادہ تر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنےوالے ان عسکریت پسندوں نے دہشت گردی کی تربیت شمالی وزیر ستان سے حاصل کی تھی۔
جنوبی پنجاب کے طالبان کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار عامر ہاشم خاکوانی بھی دہشت گردی کی ان حالیہ وارداتوں میں پنجابی طالبان کے ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دھماکہ خیز مواد سے لدی گاڑیاں مختلف عمارتوں سے ٹکرانے اور زیادہ تر خود کش حملے کرنے کے رجحان کے حامل خیبر پختونخوا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کے طالبان کے برعکس پنجابی طالبان ہمیشہ فائرنگ کرنے، لوگوں کو یرغمال بنانے، میڈیا ہائپ پیدا کرنے اور اپنی کارروائیوں میں سے ہر ایک واقعے کو زیادہ سے زیادہ دیر تک جاری رکھنے کی سوچ پر عمل پیرا ہیں۔
لاہور میں یہی طرز عمل اٹھائیس مئی کو بھی دیکھنے میں آیا اور یہی صورتحال جی ایچ کیو اور مناواں پولیس اسٹیشن پر حملوں سمیت ان تمام وارداتوں میں نظر آئی جن سے متعلق تحقیقات کے بعد ان حملوں میں پنجابی طالبان کا ملوث ہونا شواہد کی حد تک ثابت ہو گیا تھا۔
عامر خاکوانی کے مطابق پنجابی طالبان کالعدم مذہبی اور فرقہ ورانہ جماعتوں کے ان کارکنوں کی بکھری ہوئی ٹولیوں پر مشتمل ایک جماعت ہے جو افغانستان کی جنگ کے بعد دانستہ طور پر دہشت گردی کی طرف چلے گئے یا پھر دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کے آلہ کار بن گئے۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اثرات پر امریکہ کی طرف سے بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
باخبر اور باوثوق ذرائع کے مطابق حالیہ وارداتوں کے بعد پہلی مرتبہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جنوبی پنجاب میں ایک محدود آپریشن شروع کرنے کے حوالے سے مشاورت کی ہے۔ شمالی وزیرستان کے برعکس جنوبی پنجاب میں چونکہ طالبان علاقائی سطح پر گروپوں یا ’کلسٹرز‘ کی شکل میں موجود نہیں ہیں، اس لئے پنجاب میں مسلح آپریشن کے لئے ایک مختلف طریقہء کار اپنانے پر غور ہو رہا ہے۔
عسکری امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید خان کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ دینی مدرسوں والے جنوبی پنجاب سے دہشت گرد گروپوں اور تنظیموں کے لئے بھرتی کی اطلاعات آتی رہی ہیں۔ ’’اگر پنجابی طالبان کی طرف سے دہشت گردانہ حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر حکومت کے لئے صوبے کے جنوبی حصے میں غیر فوجی اور محدود آپریشن کا آغاز نا گزیر ہو جائے گا۔‘‘
حالیہ وارداتوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ لاہور میں ماڈل ٹاؤن اور گڑھی شاہو کے علاقوں میں احمدیوں کی عبادت گاہوں اور جناح ہسپتال میں ہونے والے حملوں کے علاوہ سمن آباد اور علامہ اقبال ٹاون میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے واقعات پر بھی خود قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔
گڑھی شاہو میں خفیہ اطلاعات کے باوجود پولیس قادیانی اقلیت کی عبادت گاہ کے تحفظ میں ناکام رہی۔ دہشت گرد کئی گھنٹوں تک چھت پر چڑھ کر ’’قانون کے محافظ اداروں اور ان کے اہلکاروں کو للکارتے رہے‘‘ مگر ان سیکیورٹی اہلکاروں کے پاس بظاہر ایسا کوئی ہتھیار نہیں تھا جس کی مدد سے وہ دہشت گردوں کو دور سے نشانہ بنا سکتے۔ سمن آباد میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات میں تو پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔
ماڈل ٹاؤن حملے میں ملوث صرف وہی دہشت گرد گرفتار ہو سکے جنہیں وہاں موجود لوگوں نے خود پکڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کیا تھا۔ جناح ہسپتال میں ہونے والی دہشت گردی کی خونریز داستان اور بھی پریشان کن ہے۔ پولیس کی وردیوں میں ملبوس دہشت گرد اس ہسپتال میں داخل ہوئے اور انہوں نے وہاں موجود سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ کر دیا۔ کئی افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہوئے، متعدد افراد کو یرغمال بنا لیا گیا اور پھر یہ حملہ آور ’’بڑی آسانی سے اپنا کام کرنے کے بعد‘‘ پولیس ہی کی گاڑی لے کر اس ہسپتال سے بحفاظت رخصت بھی ہو گئے۔ اس ہسپتال میں دہشت گردی کے ممکنہ واقعات سے تحفظ کے لئے متعین اور خود بھی زخمی ہو جانے والے درجنوں پولیس اہلکار اور ہسپتال کے باہر موجود پولیس کی بڑی نفری بھی ان دہشت گردوں کا بال تک بیکا نہ کر سکی۔
دہشت گردی کی ان وارداتوں نے عام شہریوں کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اور سکون کی محفوظ نیند سونے والے رہنما ان واقعات کی آڑ میں ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے میں مصروف ہیں۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں گورنر سلمان تاثیر اور وزیر قانون رانا ثناء اﷲ کے بیانات پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے عملی کوشوں میں کتنی سنجیدہ ہے۔
دہشت گردوں کو پکڑنے کی بنیادی ذمہ داری لاہور کے پولیس کمشنر خسرو پرویز اور ان کے ماتحت عملے کی ہے، جو ہمیشہ کی طرح ذمہ داری اب بھی بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ پر ڈال رہے ہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں نے پاکستان میں ریاستی خفیہ اداروں کی ناقص کارکردگی کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کے اوسط درجے کے اہلکار جو سیاسی جماعتوں کے عزائم پورے کرنے کے لئے ’پولیٹیکل ڈیوٹی‘ کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں، انہیں آج کے دور میں دہشت گردی کے واقعات کا جدید سوچ اور ٹیکنالوجی کی مدد سے مقابلہ کر سکنے کے لئے کافی سوجھ بوجھ اور تجربہ حاصل ہی نہیں ہے۔
ڈاکٹر مغیث شیخ کے بقول اگرچہ پنجاب پولیس نے ملکی فوج سے تربیت حاصل کی ہے لیکن وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت ابھی بھی نہیں رکھتی۔ ’’پنجاب پولیس کے پاس نہ تو جدید تربیت ہے اور نہ ہی جدید سازو سامان۔‘‘
معروف تجزیہ نگار امتیاز عالم کے بقول امریکہ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کی طرز پر پاکستان میں بھی ایک ایسا نیا ادارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، جو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر حوالے سے آزادانہ طور پر لیکن بہت مربوط اور مؤثر کوششیں کر سکے۔
امتیاز عالم نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ قانون نافذ کرنے والے وفاقی اور صوبائی اداروں کی مکمل اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ اب اگرچہ پنجاب حکومت نے انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں ایک نیا خصوصی محکمہ قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے، تاہم تمام تر ریاستی ڈھانچے کے ہوتے ہوئے بھی ایک نیا قائم ہونے والا محکمہ کیا بہت جلد سبھی مطلوبہ نتائج حاصل کر سکے گا، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پنجاب کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کا ہر امن پسند شہری چاہتا ہے، اور وہ بھی بلا تاخیر۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: شادی خان سیف