1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولیو رضاکاروں کا بھی کوئی سوچے گا؟

12 ستمبر 2020

’’وہ لوگ بالکل ٹھیک کرتے ہیں، جو تم جیسے پولیو ورکرز پر حملہ کرواتے ہیں۔‘‘ حیدرآباد کے ایک علاقے میں خاتون پولیو رضاکار کا ان الفاظ میں خیر مقدم کیا گیا۔ صبا حسین کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3iMz8
DW-Urdu Blogerin Saba Hussain
تصویر: Privat

ویسے تو پاکستان کے 'پاک سماج‘ میں عورتوں کی بہت عزت ہے لیکن جب کوئی عورت اپنے رزق حلال کے لیے اور ہمارے ہی بچوں کے صحت یابی کے لیے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دیتی ہے، عزت کے سارے بھرم کھل جاتے ہیں۔ ہماری ساری پاکیزگی ایک طرف ہو جاتی ہے مردانگیاں جاگ جاتی ییں۔ دھمکیوں گالیوں اور غیر مناسب الفاظ میں اس کا سواگت بھی شاید یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ ہم عورت کی عزت کر رہے ہیں۔
خیر یہ مزاحمتی رویہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بس اتنا یاد رہے کہ جن پولیو اہلکاروں کے ساتھ یہ رویہ رکھا جاتا ہے، وہ محض رضاکار ہوتے ہیں، جو اپنی استعداد سے کہیں زیادہ محنت مزدوری کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں جو معاوضہ ملتا ہے، وہ سچ پوچھیں تو ان کی محنت کے برابر نہیں ہوتا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایک ٹیم ایک دن میں پچاس سے ساٹھ گھروں تک پہنچنے کی اہلیت رکھتی ہے، جب کہ ہمارے یہاں ایک ٹیم سے ایک سو چالیس سے لیکر ایک سو ساٹھ گھر پورے کروائے جاتے ہیں۔

 اب اگر ایک پولیو ٹیم سخت گرمی میں اپنی استعداد سے دو سے تین گنا زیادہ بڑھ کر کام کرے گی تو دو مسئلے پیدا ہوں گے۔ پہلا تو یہ کہ جو کام لیا جارہا ہے، وہ معیار پہ پورا نہیں اترے گا۔ دوسرا یہ کہ دس دس سالوں سے پولیو اہلکاروں کی رضاکارانہ حیثیت بھی اس عمل میں مایوسی کا شکار ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کا شمار ان دو ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ابھی تک پولیو کا مرض ہر سال کئی بچوں کی زندگیاں متاثر کرتا ہے۔ حالانکہ ایک رپورٹ کے مطابق ''2017 میں صرف آٹھ کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ جب کہ 2018 کے وسط تک ملک میں صرف تین کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔ لیکن ملک میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ پولیو پروگرام کی انتظامیہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا، جس سے پولیو مہم کو نقصان پہنچا۔‘‘

پاکستان میں پولیو مہم کیوں ناکام ہوئی؟

ہلاک یا زخمی ہونے والے پاکستانی پولیو ورکرز، زر تلافی کا مطالبہ

پروین رحمان یہ کہتے کہتے شہید ہو گئی کہ قبضہ مافیا کچھ نہیں ہوتا بلکہ میگا مینیجمنٹ بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ یہی اس ملک کا بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جب تک میگا مینجمنٹ بہتر نہیں ہوتی تب تک ترقیاتی کاموں کو برقرار رکھنے کے صرف خواب دیکھے جا سکتے ہیں۔ پروین کے کہنےکےمطابق "ترقی صرف سمینٹ اور اینٹوں سے تو نہیں آتی۔ آپ 1100 چھوڑیں 2400 ارب روپے کے پیکجز کا اعلان کر دیں پھر بھی اس شہر(کراچی) کا کچھ نہیں ہونے والا کیونکہ شہر کو میگا مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔‘‘  پروین رحمان کی یہ تحقیق کراچی کے نکاسی آب کے نظام پر ہے۔
مینجمنٹ کا مطلب ایسا سسٹم تشکیل دینا ہے، جس میں انتظامیہ کی سرکردگی میں تنظیم کی حکمت عملی طے کی جائے اور پھر مقاصد کی تکمیل کے لیے دستیاب وسائل اور عملے کی محنت میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ دیکھا جائے تو پروین رحمان کی تحقیق میں سامنے والی تجویز کسی بھی سرکاری منصوبے کے ساتھ ساتھ پولیو جیسے میگا پراجیکٹ کے سسٹم کے لیے بھی کتنی کارآمد ہے۔
چلو مان لیتے ہیں شدت پسندوں کی وجہ سے پاکستان پولیو کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے اور 2018 میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ انتظامیہ کی تبدیلی کی وجہ سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہونا شروع ہوئے۔ لیکن یہ بات بھی تو ماننے کی ہے کہ حکومت کی تبدیلی اور شدت پسندی کوئی آج کی بات تو نہیں ہے۔ مطلب 1994 سے لے کر آج تک ایسا کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا جا سکا، جس پر حکومتی تبدیلیوں کا کوئی فرق نہ پڑے؟ پھر 2019 میں جو شدت پسندی تھی، وہ 2017 میں تو کہیں زیادہ تھی، کیا وجہ ہے کہ تب پولیو کے کیسز میں کمی آئی اور صرف آٹھ کیسز ریکارڈ ہوئے تھے؟

معذرت کے ساتھ لیکن 2017 میں یا اس سے پہلے جس حکمت عملی کے ساتھ کام کیا گیا وہ انفرادی سطح پر تھی اور جس سسٹم کو انفرادیت کی ضرورت ہو وہ سسٹم سرے سے سسٹم کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہوتا۔ یہ سسٹم کی کمزوری کا ہی نتیجہ ہے کہ 2019 میں پولیو کیسز کی تعداد پھر سے بڑھنا شروع ہو گئی اور 2019 کی آخر تک 147 کیسز ریکارڈ ہوئے۔

جب تک پولیو جیسے میگا پراجیکٹ کی میگا مینجمنٹ انفرادی سطح سے انتظامی سطح پر منتقل نہیں ہوتی پاکستان سے پولیو ختم کرنا ایک خواب رہے گا اور رضاکاروں کو مسائل میں کمی ایک سراب رہے گا۔

کہنے کو ہم ایک 'پاک مملکت‘ کے ایک 'پاک سماج‘ میں رہتے ہیں مگر عملی طور پر یہاں رویوں کو بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکمت عملی اور منصوبہ بندی درکار ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ بات ہے کہ جہاں خواتین رضاکار سوچتی ہیں کہ لوگ ہماری استعداد سے زیادہ مشقت پر اور محنت سے کم معاوضے پر بات کریں گے وہاں ہمارا سماج اس محنت پر ہی سوال اٹھارہا ہوتا ہے۔ اس سوال کو بحث سے نکالنے کے لیے سماج کے باقی افراد کا جو کردار ہے وہ اپنی جگہ، مگر اس معاملے میں پولیو پرکام کرنے والے اداروں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26