1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

پوٹن کے ساتھ اچھے تعلقات معاون ثابت ہو سکتے ہیں، شروئڈر

29 مارچ 2024

سابق جرمن چانسلر گیرہارڈ شروئڈر کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ان کی دوستی یوکرین جنگ ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے پوٹن کی طرف سے مبینہ ایٹمی حملے کے امکان کو بھی بکواس قرار دیا۔

https://p.dw.com/p/4eF78
گیرہارڈ شوئڈر اور ولادمیر پوٹن
جرمنی کے سابق چانسلر گیرہارڈ شروئڈر کا کہنا ہے کہ پوٹن کے ساتھ ان کے جو ''مثبت واقعات'' ہیں وہ انہیں فراموش نہیں کرنا چاہتے۔تصویر: dpa/dpaweb/picture-alliance

جرمنی کے سابق چانسلر گیرہارڈ شروئڈر نے جمعرات کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ مذاکرات ہی یوکرین کی جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ ہو سکتا ہے۔

پوٹن نے حملے کے انتباہات کو نظر انداز کیا، جرمن دفاعی ماہر

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''ہم نے کئی برسوں تک ایک ساتھ مل کر بڑی سمجھداری کے ساتھ کام کیا ہے۔ شاید یہی چیز اب بھی ہمیں گفت و شنید کے ذریعے حل تلاش کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ مجھے اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نظر نہیں آتا ہے۔''

یوکرینی صدر کا اتحادیوں سے جنگی طیاروں کی فراہمی کا مطالبہ

سابق جرمن چانسلر نے پوٹن کی جانب سے جوہری حملہ کرنے یا روس کی مشرقی سرحد کے نیٹو ملک پر حملہ کرنے سے متعلق ممکنہ قیاس آرائیوں کو ''بکواس'' قرار دیا۔

روسی یوکرینی جنگ: جرمنی سے اختلاف طریقے پر ہے، پالیسی پر نہیں، فرانس

شروئڈر نے کہا کہ کشیدگی میں اضافے کا سبب بننے والے ایسے منظرناموں سے بچنے اور خوف کو کم کرنے کے لیے، یوکرین کی حمایت کے ساتھ ہی پرامن حل پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔

یوکرین جنگ: ’ہتھیار ڈالنے کی علامت‘ سے متعلق پوپ کا بیان جرمنی کے لیے ناگوار

پوٹن کے ساتھ اب بھی دوستی کیوں ہے؟

گیرہارڈ شروئڈر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ یوکرین جنگ میں ہزاروں ہلاکتوں اور روسی جنگی جرائم کے باوجود اب بھی صدر پوٹن کے ساتھ ان کی دوستی کیوں برقرار ہے؟ اس پر انہوں نے یہ جواب دیا کہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

روسی لیک کے بعد جرمن اور برطانوی وزرا ئے خارجہ کی اہم ملاقات

شروئڈر نے کہا کہ پوٹن کے ساتھ ان کے جو ''مثبت واقعات'' ہیں وہ انہیں فراموش نہیں کرنا چاہتے۔ ابتدا میں تو ایسا لگتا تھا کہ جیسے پوٹن کے ساتھ ان کا یہ ذاتی تعلق اس انتہائی چیلنجنگ سیاسی مسئلے کو حل کرنے میں بھی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

گیرہارڈ شروئڈ اور پوٹن ایک ساتھ
گیرہارڈ شروئڈر سن 1998 میں جرمن چانسلر بننے کے بعد سے ہی روسی صدر ولادمیر پوٹن کے دوست ہیںتصویر: R. Jensen/dpa/picture-alliance

شروئڈر نے انٹرویو کے دوران بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ''اور اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کی سیاست میں ہمارے درمیان ہونے والے تمام مثبت واقعات کو فراموش کرنا بالکل غلط بات ہو گی۔''

جرمن فوج نے مغرب کو تقسیم کرنے کی روسی کوشش کو بے نقاب کر دیا، امریکہ

در اصل وہ فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے فوراً بعد مارچ 2022 میں ثالثی سے متعلق اپنے ایک مشن کا حوالہ دے رہے تھے۔

اس وقت انہوں نے پوٹن کے ساتھ بات چیت کے لیے ماسکو جانے سے پہلے، استنبول میں یوکرین کے سابق رکن پارلیمان اور موجودہ وزیر دفاع رستم عمروف سے ملاقات کی تھی۔ تاہم ان کی یہ پہل کامیاب نہیں ہو سکی۔

شروئڈر اب پھر سے حکومتی سطح پر ثالثی کی ایک نئی کوشش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے تحت وہ فرانس اور جرمنی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس کی پہل کریں۔

سابق چانسلر نے کہا کہ یہ، ''پوری طرح سے واضح ہے کہ جنگ کسی ایک فریق یا دوسرے فریق کی مکمل شکست کے ساتھ ختم نہیں ہو سکتی۔''

دوستی کتنی پرانی ہے؟

شروئڈر سن 1998 میں جرمن چانسلر بننے کے بعد سے ہی روسی صدر پوٹن کے دوست ہیں۔

سن 2012 میں یورپ میں سلامتی اور تعاون سے متعلق تنظیم نے روسی انتخابات میں نمایاں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔ تاہم اس وقت پوٹن کو فاتح قرار دیا گیا تھا اور چار سال وزارت عظمی کے عہدے پر خدمات انجام دینے کے بعد روسی صدر کے طور پر انہوں نے اپنا عہدہ دوبارہ سنبھال لیا تھا۔ اس وقت گیرہارڈ شروئڈر نے پوٹن کو ایک ''بے عیب جمہوریت پسند'' کہا تھا۔

سابق چانسلر بحیرہ بالٹک کے ذریعے نورڈ اسٹریم پائپ لائنوں سے متعلق بیشتر روسی کمپنیوں کے لیے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ البتہ موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولس نے دو برس قبل ان پر زور دیا تھا کہ وہ تمام روسی کمپنیوں سے مستعفی ہو جائیں۔

شروئڈر کی جماعت 'سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس' (ایس پی ڈی) کے کئی ارکان یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی پوٹن کے ساتھ ان کے مسلسل تعلقات کی وجہ سے انہیں ترک کر چکے ہیں، لیکن انہیں پارٹی سے نکالنے کی تمام کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔

ص ز/ ج ا (انیکا سوسٹ)

روس کے خلاف پابندیاں غیر مؤثر