1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس میں چاقو سے مہلک حملے کے ملزم کا آخری پیغام ’اللہ اکبر‘

7 اکتوبر 2019

فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں گزشتہ ہفتے ایک چاقو سے ہلاکت خیز حملہ کرنے والے ملزم کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ملزم کا اپنی بیوی سے موبائل فون پر چیٹ کے دوران آخری پیغام ’اللہ اکبر‘ تھا۔

https://p.dw.com/p/3QqIU
اس حملے میں مارے جانے والے پانچوں افراد پیرس پولیس کے اہلکار تھےتصویر: AFP/G. van der Hasselt

پیرس سے پیر سات اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی وزیر داخلہ کرسٹوف کاستانر اب ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں، جس کی مدد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں، خاص طور پر ملکی پولیس فورس کے اہلکاروں میں مذہبی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے رجحانات کا بروقت پتہ چلایا جا سکے گا۔

Frankreich Christophe Castaner Inneminister
فرانسیسی وزیر داخلہ کرسٹوف کاستانرتصویر: Getty Images/AFP/B. Guay

کاستانر نے ریڈیو 'فرانس انٹر‘ کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پولیس فورس میں کسی بھی طرح کی انتہا پسندی کو آئندہ ایک خود کار طریقے سے اعلیٰ حکام کو رپورٹ کیا جائے۔

انہوں نے یہ بات پیرس ہی میں گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز کیے جانے والے ایک ایسے خونریز حملے کے تناظر میں کہی، جس میں پولیس ہی کے ایک سویلین اہلکار نے چاقو سے حملے کر کے پیرس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں اپنے چار ساتھیوں کو قتل کر دیا تھا اور اس دوران وہ خود بھی موقع پر موجود ایک پولیس اہلکار کی طرف سے فائرنگ میں مارا گیا تھا۔

فرانسیسی وزیر داخلہ نے آج پیر کے روز کہا، ''یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس واقعے میں فرانسیسی ریاست اپنے فرائض کی مکمل اور بھرپور ادائیگی میں ناکام رہی۔ تین اکتوبر کو جس مسلح پولیس اہلکار نے چاقو سے حملہ کر کے چار پولیس افسران کی جان لے لی، اس 45 سالہ ملزم کے بارے میں پولیس کے ریکارڈ میں ایسی کوئی معلومات موجود ہی نہیں تھیں کہ وہ بنیاد پرست اور دہشت گردوں کا ہمدرد بن چکا تھا۔‘‘

فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق، ''تین اکتوبر کو پیرس میں مجموعی طور پر پانچ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بنے والے اس واقعے سے متعلق ایک سچ یہ بھی ہے کہ ریاست کی کارکردگی ناقص رہی اور اس حملے کے دوران خود بھی مارے جانے والے حملہ آور سے متعلق پولیس کو ایسی کوئی اطلاع ہی نہیں تھی کہ اس کا رویہ مشکوک ہو چکا تھا، جس کی چھان بین ضروری تھی۔‘‘

ملکی اپوزیشن کا الزام

پیرس میں اس خونریز حملے کے بارے میں ملکی اپوزیشن کا وزیر داخلہ کاستانر پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے اس حملے کے ملزم سے متعلق اصل حقائق کو اس حملے کے بعد کے چند گھنٹوں میں چھپانے کی کوشش کی تھی۔ وزیر داخلہ لیکن اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس کو علم ہی نہیں تھا کہ اس کا یہ سویلین اہلکار انتہا پسندانہ سوچ کا حامل ہو چکا تھا۔

خونریز دہشت گردانہ واقعات کی چھان بین کرنے والے فرانسیسی ماہرین کے مطابق تین اکتوبر کے حملے کا مرکزی ملزم نہ صرف اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا حامی بن چکا تھا بلکہ اس نے ان دہشت گردوں کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا تھا، جنہوں نے 2015ء میں فرانسیسی جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر پر ہلاکت خیز حملہ کیا تھا۔

ملزم کی اس کی بیوی سے چیٹ

فرانسیسی تفتیش کاروں کے مطابق اس حملے کے ملزم کا نام میکائل ہارپوں تھا، جو پیرس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک ماہر کے طور پر خدمات انجام دیتا تھا۔ تفتیشی ماہرین اب تک یہ پتہ بھی چلا چکے ہیں کہ ہارپوں انتہا پسند سلفی مسلمانوں کے ساتھ رابطوں میں تھا اور ان کے لیے ہمدردی محسوس کرتا تھا۔

اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 2015ء میں جب جریدے 'شارلی ایبدو‘ کے دفاتر پر شدت پسند مسلمانوں نے خونریز حملے کیے تھے، تو میکائل ہارپوں نے 12 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے ان حملوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر اس کے بہت سے ساتھی کارکن حیران رہ گئے تھے لیکن اس واقعے کی متعلقہ پولیس افسران نے اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔

مزید یہ کہ تین اکتوبر کے حملے سے قبل ہارپوں کی اس کی 33 سالہ بیوی کے ساتھ موبائل فون پر جو چیٹ ہوئی تھی، اس میں ان دونوں کے مابین 33 پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا۔ پھر ہارپوں نے یکدم یہ چیٹ ختم کر دی تھی اور اس نے اپنے بیوی کو جو آخری پیغام بھیجا تھا، اس میں اس نے صرف دو لفظ کھے تھے، ''اللہ اکبر۔‘‘

م م / ع ا (ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں