پینسٹھ برس کا طویل انتظار اور مختصر سی ملاقات
20 اگست 2018ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے ان افراد کے پاس خوشی کے آنسو تھے اور چیخیں۔ انیس سو پچاس سے انیس سو تریپن تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ کے بعد جنوبی اور شمالی کوریا کے 89 منقسم خاندانوں کے ارکان کو پہلی بار ایک دوسرے سے ملنے کی اجازت دی گئی۔
جنوبی کوریا کے ان خاندانوں کو شمالی کوریا میں داخل ہونے کے لیے خصوصی اجازت نامے جاری کیے گئے تھے اور ان کی ملاقات پیر کو بعد دوپہر شمالی کوریائی سیاحتی علاقے کومگانگ میں ہوئی۔ ایک بانوے سالہ بزرگ خاتون لی کوئم سوئم ماضی میں اپنے خاوند اور بچے سے جدا ہو گئیں تھیں۔ پیر کے روز اپنے بیٹے سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا، ’’مجھے تو یہ علم تک نہ تھا کہ میرا بیٹا ابھی تک زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘‘
بچپن میں ہی ماں سے جدا ہونے والے بیٹے نے اپنے خاندان کی ایک تصویر بھی پکڑی ہوئی تھی، جس میں اس کے والد کو بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ اپنی ماں کو یہ تصویر دکھاتے ہوئے بیٹے کا کہنا تھا، ’’ابو اکثر آپ کو یاد کیا کرتے تھے۔‘‘ اس کے جواب میں لی کوئم سوئم نے کہا، ’’میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ میں آج کا یہ دن دیکھ سکوں گی۔ مجھے تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ میرا شوہر اب تک زندہ ہے یا نہیں۔‘‘
کوریائی جنگ میں لاکھوں افراد ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے اور یہ جدائی آج تک قائم ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ امن معاہدے کی بجائے ایک باہمی جنگ بندی معاہدے کے تحت ہوا تھا اور تکنیکی لحاظ سے دونوں کوریا آج تک حالت جنگ میں ہیں۔ جدا ہونے والے رشتہ داروں میں براہ راست خطوط کے تبادلے اور ٹیلی فون کالوں پر آج تک پابندی ہے۔
جنوبی کوریائی نیوز ایجنسی یونہاپ کے مطابق تین دن تک قیام کے دوران یہ افراد ایک دوسرے سے کل گیارہ گھنٹے دورانیے کی چھ ملاقاتیں کر سکیں گے۔ جنوبی کوریا میں ایسی ملاقاتوں کے لیے ہزاروں افراد نے درخواستیں دے رکھی ہیں۔ ایسے خاندانوں کے ملاپ کے لیے ان کا انتخاب لاٹری سسٹم کے تحت کیا جاتا ہے۔ شمالی کوریا سے ایسی ملاقاتوں کے لیے شہریوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ تاہم عام سوچ یہ ہے کہ شمالی کوریا میں ایسے مواقع حکومت سے وابستگی یا قربت رکھنے والوں کو ہی فراہم کیے جاتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں اپنے شمالی کوریائی رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ صرف گزشتہ برس ہی ایسے 38 سو افراد اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کی خواہش لیے انتقال کر گئے تھے۔
ا ا / م م ( اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)