پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پر بحث
11 اپریل 2022کچھ کے خیال میں پی ٹی آئی کو کیونکہ اب ملک کے طاقت ور عناصر کی حمایت حاصل نہیں ہے اور اب وہ حکومت میں بھی نہیں ہے، اس لیے اس میں اتنا دم خم نہیں رہے گا کہ وہ مزاحمت کر سکے۔ ناقدین کے خیال میں اس صورت حال کو دیکھ کر میڈیا بھی شائد ان کا ساتھ نہ دے لیکن دوسری طرف ایسے بھی مبصرین ہیں، جن کے خیال میں عمران خان کی سیاسی وفات کی بات کرنا قبل از وقت ہے اور یہ کہ کپتان نہ صرف ملک کی سیاست میں اہم کردار ادا کرینگے بلکہ ممکنہ طور پر ایک بار پھر مقبول عام رہنما بنیں گے۔
پی ٹی آئی مقابلے کے لیے تیار ہے
تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ کل کے مظاہروں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ تحریک انصاف آج بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اب بھی ساری سیاسی جماعتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا مستقبل روشن ہے کیونکہ ہم نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی اور قومی مفادات کے لیے اقتدار کو ٹھکرایا ہے۔ اب ہم عوام کی عدالت میں جارہے ہیں اور وہاں کامیاب ہونگے۔‘‘
اقتدار سے باہر: لیکن بڑے مظاہرے
کئی ناقدین کا خیال تھا کہ اقتدار سے نکلنے کے بعد پی ٹی آئی ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ اتوار کو پی ٹی آئی کی طرف سے ہونے والے مظاہروں نے کئی مبصرین کو حیران کردیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان احتجاجی پروگراموں سے پی ٹی آئی نے اپنی اہمیت ظاہر کردی ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ پارٹی کی طرف سے بڑے مظاہرے نہ صرف کے پی میں ہوئے، جہاں وہ اقتدار میں ہے، بلکہ بڑے اجتماعات میں سے ایک بڑا جلسہ کراچی میں ہوا جہاں وہ حزب اختلاف ہے۔ بالکل اسی طرح پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہے لیکن لاہور سمیت کئی شہروں میں پارٹی نے بڑے بڑے مظاہرے کیے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی ایک متحرک سیاسی قوت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ان مظاہروں نے ان لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں، جو پی ٹی آئی کو ایک جماعت نہیں سمجھتے بلکہ روایتی سیاست دانوں کا ایک کلب سمجھتے ہیں۔ کل کے مظاہرے اراکین اسمبلی یا قومی اسمبلی کے اراکین نے منعقد نہیں کیے تھے بلکہ لوگ خود ہی سٹرکوں پر نکلے تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اب بھی عوام میں سب سے مقبول جماعت ہے۔‘‘
حزب اختلاف کی بھیانک غلطی
حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے بارے میں پہلے ہی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ولی خان، فضل الرحمن، نواز شریف اور زرداری کے خاندانوں پر مشتمل ہے۔ ''اور اب شہاز کو وزیر اعظم بنادیا گیا ہے جب کہ حمزہ وزارت اعلٰی کے امیدوار ہیں۔ بلاول کو بھی وزات مل سکتی ہے جب کہ فضل الرحمن کے رشتے داروں کو بھی اقتدار میں حصہ مل سکتا ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کے اس بیانیے کو تقویت ملے گی، جو وہ حزب اختلاف کے خلاف بیان کرتی ہے اور اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا۔‘‘
پی ٹی آئی کی سیاسی موت واقع ہوگئی ہے
تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی اقتدار سے باہر ہونے کے بعد اپنا موثر سیاسی وجود نہیں رکھ سکے گی۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار اور سیاسی مبصر ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ غیر مرئی قوتوں کی حمایت ختم ہونے کے بعد روایتی سیاست دان پی ٹی آئی کو چھوڑ دینگے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی کوئی منظم جماعت نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کبھی کسی کریک ڈاؤن کا سامنا کیا ہے۔ مختلف جماعتوں کے موقع پرستوں نے اس میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب جب وہ یہ دیکھیں گے کہ طاقتور عناصر اس کی حمایت نہیں کررہے، تو وہ پارٹی چھوڑ جائیں گے۔‘‘
پی ٹی آئی اور مزاحمت
سرفراز خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر ذرا سی بھی سختی ہوئی تو یہ برداشت نہیں کر پائین گے۔ ''پی پی پی اور نون لیگ نے تو پھر بھی کچھ سختیاں برداشت کر لی تھیں لیکن پی ٹی آئی میں روایتی سیاست دانوں کے بعد ایک بڑی تعداد اپر مڈل کلاس کی ہے، جو کریک ڈاؤن جیسی چیزوں سے نہ آشنا ہے اور اسکو برداشت بھی نہیں کر سکتی۔ لہذا یہ لاکھ مزاحمت کے نعرے لگائیں لیکن جب مزاحمت کا وقت آئے گا تو یہ بھاگ کھڑے ہونگے۔‘