چارسدہ یونیورسٹی حملہ، بیس سے زائد افراد ہلاک
20 جنوری 2016پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ضلعی ناظم فہد خان نے اکتیس جنوری تک تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ضلعی ناظم کا مزید کہنا تھا کہ تین دہشت گرد مرکزی دروازے سے جبکہ چار دیوار پھلانگ کر یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس اور بعد میں یونیورسسٹی کیمپس میں داخل ہوئے تھے۔ اس موقع پر موجود پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل سعید وزیر کا کہنا تھا، ’’مقامی پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کی خود کُش جیکٹیں نہیں پھٹی تھیں۔ دو انسپکٹرز اوور ان کا عملہ بروقت پہنچ گئے تھے اور انہوں نے عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی سیکورٹی ٹھیک تھی۔ اس کارروائی میں تین سکیورٹی اہلکار ہلاک جبکہ دو زخمی ہو چکے ہیں جبکہ قریبی رہائشی علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔
اب تک کسی گروپ یا تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر پاکستان کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کے لئے جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی وزراء سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد باچا خان یونیورسٹی پہنچ گئی تھی جبکہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی باچاخان یونیورسٹی میں آپریشن کا جائزہ لینے کے لئے پہنچ گئے۔ فوج کے ترجمان کے لفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کے مطابق آرمی نے آپریشن کے دوران چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے جبکہ ہاسٹلز کو کلیئر کردیا گیا ہے۔‘‘
عسکریت پسندوں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب باچاخان یونیورسٹی میں خدائی خدمتگار تحریک کے بانی باچا خان کی برسی کا انعقاد ہو رہا تھا۔ اس مشاعرے میں شرکت کے لئے چھ سو افراد دیگر شہروں سے بھی آئے تھے جبکہ یونیورسٹی میں طلبا و طا لبات کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف قبائلی علاقوں میں ایک عرصے سے آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق زیادہ تر عسکریت پسند ان علاقوں سے نکل کر شہری علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے متعدد اداروں کے مابین ابھی تک دہشت گردی کے خاتمے کے لئےاس طرح کی کوآرڈی نیشن دیکھنے میں نہیں آئی، جو وقت کا تقاضا ہے۔ اس سلسلے میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یا ر ولی خان کا کہنا ہے، ’’حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے واقعات کی مذمت کی بجائے مزاحمت کی پالیسیوں کو آگے بڑھائے۔ آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعد پوری قوم دہشت گردی کے خلاف اقدامات اٹھانے کے لئے متحد نظر آئی اور سیاسی لوگوں نے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی لیکن افسوس کا مقام ہے کہ نیشنل پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ نیشنل ایکشن پلان کے ایک حصے پر تو مکمل عمل ہو رہا ہے لیکن جو سول اداروں کا حصہ ہے اس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے پشاور سمیت پختونخوا کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کی جانب سے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے ان اداروں کی حفاظت کے لئے کسی قسم کی ہدایات جاری نہ ہو سکیں۔
تجزیہ نگار اور افغان اُمور کے ماہر گوہر علی خان کا کہنا تھا، ’’افغانستان کی جنگ سے کئی لوگوں کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ افغانستان میں امن آئے اور جب تک افغانستان میں امن نہیں آئے گا، پاکستان سمیت اس خطے میں امن کے قیام میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
باچا خان یونیورسٹی کے چانسلر اورگورنر خیبر پختونخوا مہتاب احمد خان عباسی کا کہنا تھا، ’یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حملہ آور مقامی لوگ ہیں لیکن مقامی لوگ بیرونی لوگوں کے تعاون کے بغیر اس طرح اقدامات نہیں اٹھا سکتے۔ دیگر یونیورسٹیز کے سیکورٹی اہلکاروں کی تربیت کی جارہی ہے تاکہ وہ ایسے حالات میں فوری کارروائی کر سکے۔ ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ دہشت گردوں کو ہر حالت میں ختم کریں گے۔ یہ انسانیت کے دشمن ہیں اور ان کے کے لئے سکول ،کالج ،مسجد یا چرچ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ‘‘
دہشت گردوں نے باچاخان یونیورسٹی پر بھی آرمی پبلک سکول کے طرز پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی تاہم مقامی سیکورٹی اہلکاروں کی فوری مداخلت کی وجہ سے وہ باچاخان یونیورسٹی میں منعقدہ مشاعرے کی تقریب کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جبکہ وہ ہاسٹل اور کلاسز تک بھی رسائی حاصل نہ کر سکے۔