چانسلر میرکل کی جاسوسی: اوباما کیا جانتے تھے؟
29 اکتوبر 2013امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے تردید کے باوجود ایک جرمن اخبار نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی صدر اوباما سن 2010ء سے میرکل کے فون کی نگرانی سے آگاہ تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی تردید کے باوجود شبہات ختم نہیں ہوئے۔
امریکا کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی ایک خاتون ترجمان کی جانب سے جرمن اخبار بِلڈ اَم زونٹاگ میں شائع ہونے والی اس خبر کی تردید کی گئی ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی سے متعلق امریکی صدر باراک اوباما ذاتی طور پر سن 2010 سے آگاہ تھے۔ لیکن اس بارے میں وائٹ ہاؤس تاحال خاموش ہے۔ این ایس اے کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے صدر باراک اوباما اور قومی سلامتی ایجنسی کے سربراہ کیتھ الیگزینڈر کے درمیان انگیلا میرکل کے حوالے سے کبھی بات چیت نہیں ہوئی۔
اخباری رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ این ایس اے انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی ممکنہ طور پر گزشتہ دس برس یا اس سے بھی قبل سے کر رہی ہے، جب وہ جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز نہیں تھیں اور سی ڈی یو کی سربراہ تھیں۔
این ایس اے کے ایک سابق اہلکار ٹامس ڈریک، جو اٹھارہ برس تک اس ایجنسی کا حصہ رہے، کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ خبریں حیرت انگیز نہیں۔ ڈریک، ایڈورڈ سنوڈن سے بھی بہت پہلے اس ایجنسی سے وابستہ تھے۔
چند ماہ قبل اس ایجنسی کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن نے بہت سا خفیہ مواد میڈیا کے حوالے کر دیا تھا، جس کے رفتہ رفتہ منظرِ عام پر آنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ سنوڈن امریکا سے فرار ہو کر پہلے ہانگ کانگ اور پھر ماسکو پہنچے تھے۔ ماسکو میں وہ ایک برس کے لیے عارضی سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
ڈریک کے بقول، ’’مجھے امید تھی اور میں منتظر تھا کہ ابھی اور دھماکے ہوں گے۔ ایسا اس لیے کہ میں اندر کی معلومات سے واقف تھا۔‘‘
ڈریک نے مزید کہا، ’’آپ کو گیارہ ستمبر کے حملوں کو یاد رکھنا ہو گا، کیوں کہ بہت سے ہائی جیکر جرمنی سے تھے اور جرمنی میں رہتے رہے تھے یا جرمنی سے گزر کر امریکا پہنچے تھے۔ اس وقت این ایس اے اور امریکی حکومت نے فیصلہ کیا کہ نگرانی کے لیے یورپ میں جرمنی سب سے اہم ٹارگٹ ہو گا۔‘‘
ڈریک نے تاہم کہا کہ اب جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کی شدت بہت زیادہ ہے۔’’یہ بین الاقوامی سفارت کاری کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے۔ یہ چانسلر میرکل کے لیے ذاتی سوال ہو گا۔ یہ ان کا ذاتی موبائل فون تھا۔ ایسا کرنا کیوں ضروری تھا؟ حقیقی خطرات کے خلاف جنگ میں آپ کے اپنے ہی اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک کی جاسوسی۔‘‘
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے صحافی اور ماضی میں واٹر گیٹ اسکینڈل کو منظر عام پر لانے والے بوب وُڈورڈ نے بھی اس خفیہ پروگرام کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’اس سے آپ ایک نکتے پر پہنچنے ہیں، جو آپ کو پریشان کرتا ہے اور وہ ہے، خفیہ حکومت!‘‘
واضح رہے کہ وُڈورڈ کی جانب سے واٹر گیٹ اسکینڈل کو منظر عام پر لانے کے بعد ہی سن 1974ء میں صدر نکسن کو مستعفی ہونا پڑا تھا اور یہ امریکا کی سیاسی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔