چم نسل کے ویتنامی مسلمان: ایک مذہب پسند اقلیت
14 ستمبر 2010ويتنام کے دارالحکومت ہوچی منہ ميں نماز کے اوقات ميں جب مسجد کے مينار سے اذان کی آواز گونجتی ہے توسڑکوں پر سفيد ٹوپياں اور لمبے لبادے پہنے بہت سے مسلمان مسجد کی طرف جاتے دکھائی ديتے ہيں۔
سچ تو يہ ہے کہ يہ ملائيشيا، انڈونيشيا يا برونائی کا کوئی منظر معلوم ہوتا ہے ويتنام کا نہيں، جس کی چينی اثرات والی ثقافت ميں مسلمان بہت اقليت ميں ہيں۔
ويتنامی دارالحکومت کے مسلمانوں کی چھوٹی سی برادری سے تعلق رکھنے والے چم مسلمانوں کی اکثريت ہوچی منہ کے ڈسٹرکٹ آٹھ نامی علاقے ميں رہتی ہے۔ يہ شہر غير رسمی طور پر اب بھی سائیگون ہی کہلاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ آٹھ کی آبادی 1300 سے زيادہ ہے۔ يہاں حلال ريستوراں، ايک بڑی مسجد اور ايک مدرسہ بھی ہے، جہاں سے طلباء کو مزيد دينی تعليم کے لئے باقاعدگی سے ملائيشيا بھيجا جاتا ہے۔
ويتنام کے جنوبی اور مرکزی حصوں کی چم برادريوں کے علاوہ ہوچی منہ کے يہ چم ہی اس چمپا حکمران خاندان کی کُل باقيات ہيں جس نے صديوں تک ويتنام پربادشاہت کی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ بدھ مت کے پيروکاروں کی اکثريت کے 86 ملين کی آبادی والے اس ملک ميں چم باشندوں کی تعداد ايک لاکھ سے زائد ہے۔ ايک چم خاتون نے کہا کہ چم حکمرانوں کو زوال آیا اور اقتدار ان سے چھن گيا۔ اب اس خاتون کو يہ محسوس ہوتا ہے کہ جيسے وہ کسی اجنبی ملک ميں رہتی ہو، جيسے کہ يہ اس کا وطن ہی نہ ہو۔
چم دراصل ہندو تھے جنہوں نے جنوبی اور وسطی ويتنام کے بعض حصوں پر صديوں تک حکومت کی تھی اور جنہوں نے رفتہ رفتہ اسلام قبول کر ليا تھا۔ تاہم 15 ويں صدی کے اواخر ميں ويتناميوں نے جنوب کی طرف يلغار کی تھی، جس کے ساتھ ہی چمپوں کا زوال شروع ہو گيا تھا۔ اس بادشاہت کی نماياں ترين باقيات ميں دانانگ شہر کے قريب مائی سن مندر کے کھنڈرات ہيں، جنہيں يونيسکو نے عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ يہ کھنڈرات سياحوں کی دلچسپی کا باعث بھی ہيں۔
محققين کا کہنا ہے آج چم باشندوں ميں سے 80 فيصد سے زيادہ مسلمان ہيں۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق ويتنام کے چھ بڑے مذہبی گروہوں ميں سے مسلمان سب سے چھوٹا گروہ ہيں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زيادہ ہے۔
کميونسٹ ملک ويتنام ميں مذہبی سرگرميوں پر حکومت کا کنٹرول ہے ليکن مختلف مذاہب ميں عبادات خوب زوروں پر ہيں۔ کيتھولک باشندوں اور حکومت کے درميان ايک طویل عرصے تک ايک قطعہء زمين پر تنازعہ چلتا رہا تھا اور بعض بدھ اقليتی گروپوں کو شکايت ہے کہ انہيں تنگ کيا جاتا ہے۔ ویتنام ميں مسلمان زيادہ کھل کرمنظر عام پر آنے سے گريز کرتے ہيں۔
مقامی مدرسے کے نائب مينيجر حاجی موسیٰ نے کہا: ’’ہم صرف مذہب پر عمل کرتے ہيں اور سياست سے کوئی تعلق نہيں رکھتے۔‘‘ وہ روانی سے ملائی زبان بولتے ہیں اور تھوڑی سی عربی بھی بول ليتے ہيں۔ موسیٰ نے کہا کہ ہوچی منہ ميں ايک درجن سے زيادہ آئمہ ہيں اور ان سب نے ويتنام ہی ميں تربيت حاصل کی ہے۔ غير ملکی امام اکثر يہاں آتے رہتے ہيں اور ویتنامی زبان ميں قرآن کا ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
چم مسلم خواتين عموماً سروں کو رومال سے ڈھانپتی ہيں ليکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کارکنوں کی طرف سے ممکنہ زيادتيوں کے خوف سے دوران ملازمت اپنے سروں سے یہ رومال اتار ديتی ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک