چینی صدر کا دورہء ہانگ کانگ: جشن بھی، احتجاج بھی
29 جون 2017برطانیہ نے یکم جولائی سن 1997 کو ہانگ کانگ کا انتظام چین کے سپرد کیا تھا اور اس حوالگی کے بیس برس مکمل ہونے پر چینی صدر شی جن پنگ تقریبات میں شرکت کے لیے ہانگ کانگ پہنچے ہیں، تاہم یہ شہر سیاسی طور پر چین کے حق اور مخالفت کے نکتہ ہائے نظر میں بٹا ہوا ہے۔
’ایک ملک دو نظام‘ کے فارمولے کے تحت برطانیہ نے یہ علاقہ چینی انتظام میں دیا تھا۔ اس فارمولے کے تحت چین سے ضمانت لی گئی تھی کہ ہانگ کانگ کی خودمختاری اور آزاد عدالتی نظام چینی اثر سے الگ رکھا جائے گا۔ بیجنگ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ہانگ کانگ میں رائج سرمایہ داری نظام کو ’کم از کم 50 برس تک‘ تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ مگر یہ طے نہیں ہے کہ سن 2047 میں پچاس برس مکمل ہو جانے پر کیا کیا جائے گا۔
جمعرات کو ہانگ کانگ پہنچنے پر چینی صدر شی جن پنگ نے چینی پرچم لہراتے اور جشن مناتے ہوئے لوگوں کے ہجوم کے درمیان کہا، ’’ہانگ ہانگ ہمیشہ میرے دل کی دھڑکنوں کا حصہ رہا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم ہانگ کانگ کے معاشرے کے تمام طبقوں کے ساتھ مل کر مختلف تجربات سے مستقبل کی ضمانت دیں گے اور یہ طے کریں گے کہ ایک ملک دو نظام کا طریقہ ہائے کار مستحکم ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حالیہ کچھ برسوں میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ہانگ کانگ میں بڑھتا اثرورسوخ وہاں بسنے والے متعدد طبقوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ روئٹرز کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں بیجنگ حکومت مخالف کتابوں کی فروخت میں ملوث افراد کے اغوا اور آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے دو قانون سازوں کو نااہل قرار دینے کے واقعات نے ہانگ کانگ کے متعدد طبقوں میں تشویش کی لہر پیدا کی ہے۔
دوسری جانب ہانگ کانگ میں مکمل جمہوریت کے حق میں یکم جولائی کو ہمیشہ کی طرح بڑے مظاہرے بھی منعقد ہو رہے ہیں۔ بدھ کی شب پولیس نے جمہوریت کے حامی متعدد کارکنوں کو شی جن پنگ کی آمد سے قبل حراست میں لیا۔ ان میں سے چند ایک وہ تھے جو ہانگ کانگ کی برطانوی انتظام سے چینی انتظام میں دیے جانے کے سخت مخالفت کرتے آئے ہیں۔