چین کا ’ون چائلڈ پالیسی‘ کے خاتمے کا اعلان
29 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی نے جمعرات کے روز اعلان کیا کہ ایک فیملی ایک بچے کے بجائے اب دو بچے بھی پیدا کر سکے گی۔ چین میں متنازعہ ’ون چائلڈ پالیسی‘ 1978ء میں متعارف کرائی گئی تھی، جس کا مقصد شرح پیدائش کو کنٹرول کرنا تھا۔ تاہم اب چین میں زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے اس ملک کی اقتصادیات پر منفی اثرات کا خدشہ بھی پیدا ہو چکا ہے۔
چین میں 2013ء میں ایسے گھرانوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی، جو اقتصادی حوالے سے مضبوط اور بچوں کی بہتر انداز میں کفالت کے قابل تھے۔ حالیہ کچھ عرصے سے چین میں اسکالرز نے حکومت پر زور دینا شروع کر دیا تھا کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق بنائی جانے والی اپنی ’ون چائلد پالیسی‘ میں اصلاحات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کی کمی سے ملکی لیبر مارکیٹ میں خلاء پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے کمیونسٹ پارٹی کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ بیجنگ نے ایک بچہ پیدا کرنے کی اپنی پالیسی میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے، ’’چین اپنی عشروں پرانی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے شادی شدہ جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دے گا۔‘‘ تاہم فوری طور پر اس نئی پالیسی کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس نئی پالیسی کے نفاذ کے لیے نظام الاوقات کیا ہو گا۔
دوسری طرف کچھ ناقدین نے اس چینی پالیسی میں تبدیلی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ نے اس اقدام میں دیر کر دی ہے اور ’ون چائلڈ پالیسی‘ کے منفی اثرات ختم ہونے میں عرصہ لگے گا۔ ان کے مطابق چین کی اس متنازعہ پالیسی سے نہ صرف اقتصادیات بلکہ معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ چین میں ’ون چائلڈ پالیسی‘ پر دانستہ طور پر عمل نہ کرنے والے جوڑوں کی کم ازکم سزا میں جرمانہ، ملازمت سے نکال دیا جانا اور کچھ واقعات میں زبردستی اسقاط حمل کروا دینا بھی شامل ہے۔
چین کے سماجی اور ڈیموگرافک امور کے ماہر وانگ فینگ کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کے قوانین کے حوالے سے یہ تبدیلی انتہائی اہم ہے۔ فینگ کے بقول یوں دنیا تبدیل ہو جائے گی تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین میں زیادہ عمر کی آبادی کی وجہ سے مسائل برقرار رہیں گے۔