ڈاخاؤ کے سابقہ اذیتی مرکز کا تاریخی دروازہ چوری
3 نومبر 2014جنوبی جرمن صوبے باویریا کی پولیس نے بتایا کہ نازی دورکا یہ تاریخی دروازہ دو میٹر چوڑا اور ایک میٹر لمبا تھا اور اسے اتوار کی شب کسی وقت چوری کیا گیا ہے۔ اس پر تحریر تھا’ کام آزادی دلاتا ہے‘۔ نازی سوشلسٹوں کی جانب سے قائم کیے گئے ہر اذیتی مرکز پر تحریر لازمی دکھائی دیتی ہے۔
پولیس نے مزید بتایا کہ اس کیمپ میں کیمروں سے نگرانی کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے تاہم وہاں چوکیدار حفاظت کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر حکام نے شہریوں سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ چور اس دروازے کو گاڑی میں لاد کر لے گئے ہیں۔
صوبہ باویریا میں تاریخی مقامات کی فاؤنڈیشن کے سربراہ کارل فریلر نے اس ایک انتہائی مذموم عمل قرار دیا ہے۔ ڈاخاؤ کی یادگار کی نگران گابریئلے ہامرمن کے بقول یہ چوری بے حرمتی اور بے ادبی کا ایک نیا معیار ہے، ’’یہ دروازہ قیدیوں کے مصائب کی مرکزی علامت تھا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سابقہ کیمپ کی نگرانی کا کام ایک نجی کمپنی کے ذمے ہے، ’’ نگرانی کے لیے کیمرے نصب کرنے کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا جا سکا ہے۔‘‘
ڈاخاؤ کیمپ صوبائی دارالحکومت میونخ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے۔ اسے 1933ء میں اُس وقت قائم کیا گیا تھا، جب آڈولف ہٹلر کو جرمن چانسلر بننے ابھی دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے۔ ابتدائی طور پر یہ سیاسی قیدیوں کے لیے بنایا گیا تھا تاہم دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ ایک اذیتی مرکز میں تبدیل ہو گیا اور ایک اندازے کے مطابق اُس دور میں ڈاخاؤ میں تقریباً 41 ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ 29 اپریل 1945ء کو امریکی فوجیوں نے اسے آزاد کرایا تھا۔
ڈاخاؤ کا مرکز دیکھنے کے لیے ہر سال دنیا بھر سے آٹھ لاکھ سے زائد سیاح آتے ہیں۔ نازیوں کی جانب سے پولینڈ میں قائم آؤشوٹس کے اذیتی مرکز کے دروازے پر بھی ’ کام آزادی دلاتا ہے‘ تحریر ہے۔ 2009ء میں صرف اسی تحریر کو چرا لیا گیا تھا۔ تاہم کچھ عرصے بعد ہی پولیس چور کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس چوری میں سویڈن کا ایک نیو نازی ملوث تھا، جسے ڈھائی سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
پولیس کے بقول یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ ڈاخاؤ کے واقعے میں نیو نازی ملوث ہیں یا تاریخی اشیاء جمع کرنے والا کوئی گروہ۔ تاہم تمام امکانات پر غور کرتے ہوئے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔